ڈھاکہ: ورلڈ کپ کی رنگا رنگ تقریب

بنگا باندھو سٹیڈیم میں تقریب کی رہہرسل کا ایک منظر

ماضی کی طرح یہ عالمی کپ بھی تنازعات سے محفوظ نہیں رہا۔ اس کے چودہ میچوں کی میزبانی 1992 کے عالمی چمپئین پاکستان نے بھی کرنی تھی۔ لیکن سلامتی کے خدشات کے باعث خصوصاَ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر 2009 کے اوائل میں لاہور میں کھیلے جانے والے ایک ٹیسٹ میچ کے دوران دہشت گردانہ حملے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے پاکستان کو عالمی کپ کے میچوں کی میزبانی سے محروم کردیا۔ تاہم اس کے باجود ٹورنامنٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی سے پاکستان کو اُس کا حصہ دیا جائے گا۔

عالمی کرکٹ کپ کی افتتاحی تقریب جمعرات کو بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے بنگلہ بندھو نیشنل سٹیڈیم میں ہوئی جس میں گانوں، رقص اور لیزر شو کا مظاہرہ کیا گیا۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے بطور مہمان خصوصی اس تقریب میں شرکت کی۔

تقریب کا آغاز بنگلہ دیش کا قومی ترانہ بجا کر کیا گیا جس کےاختتام پرمقامی گلوکاروں نے بنگالی زبان میں نغمے پیش کیے۔ اس کے بعد ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی چودہ ٹیموں کے کپتان باری باری سائیکل رکشا میں سوار ہوکر گراونڈ میں داخل ہوئے جن کا سٹیڈیم میں موجود35 ہزار تماشائیوں نےتالیاں بجا کر استقبال کیا۔ بھارتی گلوگار سونو نگم نے عالمی کپ میں شرکت کرنے والی ٹیموں کے لیے انگریزی میں لکھا گیا خصوصی نغمہ گایا جس کے بعد معروف گلوکارہ رونا لیلیٰ نے ’دما دم مست قلندر علی میرے دم دے اندر‘ گایا جس پر سیڈیم موجود میں تماشائیوں نے جھومتے ہوئے اور تالیاں بجا کر اُن کا ساتھ دیا۔

ملک کی کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنے بڑے ٹورنامنٹ کے انعقاد کے لیے شہر کو خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔

بین الاقوامی شہرت یافتہ راک سٹار برائن ایڈمز اور تین رکنی شنکر-احسان-لوئے گروپ بھی اس تقریب میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والوں میں شامل ہیں جس سے کرکٹ کے کھیل سے منسلک اس تفریحی پہلو کے بڑھتے ہوئے کردار کی عکاسی ہوتی ہے۔

برائن ایڈمز

ٹھیک دو روز بعد ہفتہ کو عالمی کپ کی مشترکہ میزبانی کرنے والے بنگلہ دیش اور بھارت کی ٹیمیں دارالحکومت ڈھاکہ کے مضافات میں میر پور کے شیرِ بنگال نیشنل سٹیڈیم میں افتتاحی میچ میں مدِمقابل ہوں گی اور یوں 43 دنوں پر محیط اس عالمی مقابلے کا آغاز ہو جائے گا۔ بھارت کو توقع ہے کہ وہ یہ میچ جیت کر 2007 کے ورلڈ کپ میں ہونے والی شکست کا بدلہ لے گا جس کے باعث اسے اندرون ملک شدید ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ٹورنامنٹ کے تیسرے میزبان سری لنکا سمیت مجموعی طور پر تینوں ملکوں میں تیرہ مقامات پر یہ میچ کھیلے جائیں گے۔

اتوار کو گروپ اے کا میچ میزبان سری لنکا اور کینیڈا کے درمیان کولمبو میں کھیلا جائے گا۔ برصغیر میں پہلی مرتبہ 1987 میں عالمی کپ بھارت اور پاکستان کی مشترکہ میزبانی میں کھیلا گیا تھا۔ جبکہ 1996 میں سری لنکا بھی میزبان بنا تھا۔

دسویں عالمی کپ میں چودہ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں جو مجموعی طور پر 49 میچ کھیلیں گے جن میں سے 29 بھارت، 13سری لنکا اور 8 بنگلہ دیش میں کھیلے جائیں گے۔ اس ورلڈ کپ میں امپائر کے غلط فیصلوں کے باعث میچ کے ناخوشگوار نتیجے سے بچنے کے لیے پہلی بار ڈی ایس آر یعنی فیصلے کا از سرنو جائزہ لینے کا نظام بھی متعارف کروایا جارہا ہے۔

ورلڈ کپ 2011 کی ٹرافی

ماضی کی طرح یہ عالمی کپ بھی تنازعات سے محفوظ نہیں رہا۔ اس کے چودہ میچوں کی میزبانی 1992 کے عالمی چمپئین پاکستان نے بھی کرنی تھی۔ لیکن سلامتی کے خدشات کے باعث خصوصاَ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر 2009 کے اوائل میں لاہور میں کھیلے جانے والے ایک ٹیسٹ میچ کے دوران دہشت گردانہ حملے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے پاکستان کو عالمی کپ کے میچوں کی میزبانی سے محروم کردیا۔ تاہم اس کے باجود ٹورنامنٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی سے پاکستان کو اُس کا حصہ دیا جائے گا۔

ورلڈ کپ سے چند روز قبل ایک تنازع اُس وقت اٹھ کھڑا ہوا جب بھارتی حکام 27فروری کوکولکتہ میں بھارت اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے میچ کے لیے ایڈن گارڈن کرکٹ گراؤنڈ کو مقررہ وقت تک تیار کرنے میں ناکام ہو گئے اور آئی سی سی نے اس میچ کو بنگلور منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایڈن گارڈن میں تقریباَ ایک لاکھ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے لیکن کرکٹ کے کھیل سے محبت کرنے والے اس شہر کے رہائشی ایک تاریخی حیثیت کے حامل کرکٹ گراؤنڈ پرعالمی کپ کا میچ نہیں دیکھ پائیں گے۔

عالمی کپ کا فائنل میچ 2 اپریل کو ممبئی کے وین کھیڈے سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا اور ماہرین کرکٹ میزبان بھارت کا شمار اُن ٹیموں میں کررہے ہیں جو یہ اعزاز حاصل کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ بھارت نے 28 سال قبل کھیلا گیا عالمی کرکٹ کپ جیتا تھا۔ دسویں ورلڈ کپ کی میزبانی کرنا والا سری لنکا بھی 1996 کے ورلڈ کپ کا فاتح تھا۔

دور حاضر کے عظیم کھلاڑی سچن ٹنڈولکر،مرلی دھرن اور رکی پونٹنگ کا یہ آخری ورلڈ کپ ہے۔