چھٹے سالانہ ورلڈ اربن فورم میں شہروں پر آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی، معاشی اور ماحولیاتی مسائل زیر بحث لائے جائیں گے اور ان پر قابو پانے کے طریقوں پر غور کیا جائے گا
ورلڈ اربن فورم ہفتے کے روز اٹلی کے شہر نیپلز میں منقعد ہورہاہے ۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس کانفرنس میں دنیا بھر کے 114 ممالک سے تقریباً تین ہزار ماہرین، عہدے دار اور سرگرم کارکن شرکت کریں گے۔اس سال کی عالمی کانفرنس کا موضوع ہے شہری آبادی کا مستقبل۔
چھٹے سالانہ ورلڈ اربن فورم میں شہروں پر آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی، معاشی اور ماحولیاتی مسائل زیر بحث لائے جائیں گے اور ان پر قابو پانے کے طریقوں پر غور کیا جائے گا۔
ماہرین کا کہناہے کہ مندوبین شہروں میں زندگی کا معیار بہتر بنانے، تمام طبقوں کے لیے آگے بڑھنے اور خوشحالی حاصل کرنے کے مساوی مواقعوں کی فراہمی ، نئی ملازمتوں کی تخلیق ، توانائی کی فراہمی اور آمدروفت کے ذرائع کی ترقی جیسے پہلوؤں پر اپنی تجاویز پیش کریں گے۔
اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں غربت کے خلاف کام کرنے والی ایک تنظیم ایکشن ایڈ انٹرنیشنل کی ایک عہدے دار رامونا وجےراسا بھی شامل ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ورلڈ اربن فورم کا انعقاد ہر دوسال کے بعد اقوام متحدہ کے تحت کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا فورم ہے جس میں دنیا بھر سے لوگ اکٹھے ہوکر شہری آبادی میں اضافے کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کرتے ہیں۔اس فورم میں سیاست کی جگہ کم ہوتی ہے اور یہاں زیادہ تر اقوام متحدہ کے مختلف ادارے، مختلف شعبوں کے ماہرین اور شہری حکومتوں کے عہدے دار شریک ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ شہروں پر آبادی کے دباؤ کے دو اہم پہلو ہیں۔ یعنی دیہی آبادی کی شہروں کی جانب منتقلی ، جو اپنے ساتھ تشدد ، جرائم، غریبوں آبادیوں میں رہائشی سہولتوں کی کم یابی وغیرہ ، لیکن دوسری جانب نقل مکانی کرکے شہروں میں بسنے والوں کو آگے بڑھنے کے مواقع بھی میسر آتے ہیں۔
ایکشن ایڈ تنظیم اس عالمی فورم میں شہری علاقوں میں خواتین کے تحفظ سے متعلق مسائل سامنے لانا چاہتی ہے۔وجے راسا کہتی ہیں کہ ان مسائل میں خواتین میں عدم تحفظ کا احساس، خواتین کے مسائل کے حل میں پولیس کی عدم دلچسپی اور اعلیٰ سطحی جرائم شامل ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ شہری آبادی کی بہتر منصوبہ بندی کرکے کئی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔
وجے کا کہناہے کہ شہروں میں خواتین کو درپیش مسائل میں سے اکثر کے ممکنہ حال موجود ہیں۔ لیکن ان مسائل کے حقیقی اور دیر پا حل کے لیے پہلے ان کی تہہ تک جانے کی ضرورت ہے۔
وجے راسا کہتی ہیں کہ ایکشن ایڈ کو گھانا ، جنوبی افریقہ اور بھارت میں اپنی تحقیق کے دوران پتا چلا کہ ان ممالک میں بالخصوص 19 سے 24 سال کی جوان لڑکیوں کو معاشی اور جنسی استحصال جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہاہے اور یہ کہ انہیں علاج معالجے اور زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کی مناسب سہولتیں بھی حاصل نہیں ہیں۔
وجے راسا کہتی ہیں کہ اس تصویر کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ شہری علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم کے بہتر مواقع حاصل ہوتے ہیں اور ان کی تیارکردہ اشیاء کے لیے ایک بڑی مارکیٹ موجود ہوتی ہےاور یہ کہ شہروں میں وہ اپنے حقوق کے لیے سیاسی یا لابنگ نیٹ ورکس میں شامل ہوسکتی ہیں۔
چھٹے سالانہ ورلڈ اربن فورم میں شہروں پر آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی، معاشی اور ماحولیاتی مسائل زیر بحث لائے جائیں گے اور ان پر قابو پانے کے طریقوں پر غور کیا جائے گا۔
ماہرین کا کہناہے کہ مندوبین شہروں میں زندگی کا معیار بہتر بنانے، تمام طبقوں کے لیے آگے بڑھنے اور خوشحالی حاصل کرنے کے مساوی مواقعوں کی فراہمی ، نئی ملازمتوں کی تخلیق ، توانائی کی فراہمی اور آمدروفت کے ذرائع کی ترقی جیسے پہلوؤں پر اپنی تجاویز پیش کریں گے۔
اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں غربت کے خلاف کام کرنے والی ایک تنظیم ایکشن ایڈ انٹرنیشنل کی ایک عہدے دار رامونا وجےراسا بھی شامل ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ورلڈ اربن فورم کا انعقاد ہر دوسال کے بعد اقوام متحدہ کے تحت کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا فورم ہے جس میں دنیا بھر سے لوگ اکٹھے ہوکر شہری آبادی میں اضافے کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کرتے ہیں۔اس فورم میں سیاست کی جگہ کم ہوتی ہے اور یہاں زیادہ تر اقوام متحدہ کے مختلف ادارے، مختلف شعبوں کے ماہرین اور شہری حکومتوں کے عہدے دار شریک ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ شہروں پر آبادی کے دباؤ کے دو اہم پہلو ہیں۔ یعنی دیہی آبادی کی شہروں کی جانب منتقلی ، جو اپنے ساتھ تشدد ، جرائم، غریبوں آبادیوں میں رہائشی سہولتوں کی کم یابی وغیرہ ، لیکن دوسری جانب نقل مکانی کرکے شہروں میں بسنے والوں کو آگے بڑھنے کے مواقع بھی میسر آتے ہیں۔
ایکشن ایڈ تنظیم اس عالمی فورم میں شہری علاقوں میں خواتین کے تحفظ سے متعلق مسائل سامنے لانا چاہتی ہے۔وجے راسا کہتی ہیں کہ ان مسائل میں خواتین میں عدم تحفظ کا احساس، خواتین کے مسائل کے حل میں پولیس کی عدم دلچسپی اور اعلیٰ سطحی جرائم شامل ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ شہری آبادی کی بہتر منصوبہ بندی کرکے کئی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔
وجے کا کہناہے کہ شہروں میں خواتین کو درپیش مسائل میں سے اکثر کے ممکنہ حال موجود ہیں۔ لیکن ان مسائل کے حقیقی اور دیر پا حل کے لیے پہلے ان کی تہہ تک جانے کی ضرورت ہے۔
وجے راسا کہتی ہیں کہ ایکشن ایڈ کو گھانا ، جنوبی افریقہ اور بھارت میں اپنی تحقیق کے دوران پتا چلا کہ ان ممالک میں بالخصوص 19 سے 24 سال کی جوان لڑکیوں کو معاشی اور جنسی استحصال جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہاہے اور یہ کہ انہیں علاج معالجے اور زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کی مناسب سہولتیں بھی حاصل نہیں ہیں۔
وجے راسا کہتی ہیں کہ اس تصویر کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ شہری علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم کے بہتر مواقع حاصل ہوتے ہیں اور ان کی تیارکردہ اشیاء کے لیے ایک بڑی مارکیٹ موجود ہوتی ہےاور یہ کہ شہروں میں وہ اپنے حقوق کے لیے سیاسی یا لابنگ نیٹ ورکس میں شامل ہوسکتی ہیں۔