مصرمیں فوجی بغاوت پر عالمی ردِ عمل

بیشتر مغربی ممالک نے مصر میں فوجی بغاوت پر محتاط ردِ عمل ظاہر کیا ہے جب کہ خلیجی عرب ممالک نے مصری فوج کے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔
مصر میں فوج کی جانب سے ملک کے پہلے منتخب اسلام پسند صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے اور آئین معطل کرنے پر عالمی رہنمائوں کی جانب سے ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔

بیشتر مغربی ممالک نے مصر میں فوجی بغاوت پر محتاط ردِ عمل ظاہر کیا ہے جب کہ خلیجی عرب ممالک نے مصری فوج کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور ملک کے عبوری سربراہ کو خیرمقدمی پیغامات بھجوائے ہیں۔

خطے کی اہم طاقت ترکی نے فوجی بغاوت کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جب کہ ایران کی جانب سے محتاط ردِ عمل سامنے آیا ہے۔

افریقی ممالک کا ردِ عمل

چوّن افریقی ممالک کے اتحاد 'افریقی یونین' نے فوجی بغاوت کو "غیر آئینی تبدیلی" قرار دیتے ہوئے تنظیم میں مصر کی رکنیت معطل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

'اے یو' کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ مصر کی صورتِ حال پر غور کے لیے تنظیم کی 'کونسل برائے امن و سلامتی' کا اجلاس جمعے کو طلب کرلیا گیا ہے۔

عہدیدار کے مطابق امکان ہے کہ کونسل کسی بھی رکن ملک کی آئینی حکومت میں دخل اندازی پر اس کی رکنیت کی معطلی کی روایت برقرار رکھے گی اور مصر میں آ نے والی غیر آئینی تبدیلی پر اس کی رکنیت معطل کردی جائے گی۔

مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کا ردِ عمل


بیشتر خلیجی عرب ریاستوں نے مصر میں آنے والی تبدیلی کا خیر مقدم کرتے ہوئے ملک کے نئے عبوری سربراہ اور آئینی عدالت کے چیف جسٹس عادل منصور کو مبارک باد کے پیغامات بھجوائے ہیں۔

بدھ کو ہونے والی فوجی بغاوت کے فوراً بعد سعودی عرب مصری فوج کی حمایت میں بیان دینے والا پہلا ملک تھا۔ سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ نے فوج کو مبارک باد کے پیغام میں کہا تھا کہ "ہم مصری تاریخ کے اس نازک دور میں قیادت سنبھالنے پر آپ کو مبارک باد" پیش کرتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے اپنے ایک بیان میں "برادر ملک میں ہونے والے قومی اتفاقِ رائے پر اطمینان" ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کےنتیجے میں مصر خود کو درپیش بحران پر پرامن طریقے سے قابو پانے میں کامیاب رہا ہے۔

کویت کے امیر شیخ صباح احمد الصباح نے ملکی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے مصری افواج کے "مثبت اور تاریخی کردار" کو سراہا ہے۔

قطر کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق ملک کے نئے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے مصر کے عبوری صدر عدلی منصور کو مبارک باد کا پیغام بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کا ملک "مصری عوام کی خواہشات" کا ساتھ دیتا رہے گا۔

خیال رہے کہ خلیجی ممالک میں سے قطر واحد ملک تھا جس نے 2011ء کی 'عرب اسپرنگ' کے نتیجے میں مصر میں قائم ہونے والی 'اخوان المسلمون' کی حکومت کی بھرپور مالی مدد کی تھی۔

اندرونی خانہ جنگی کا شکار شام کے صدر بشار الاسد نے بھی محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کا بھرپور خیر مقدم کیا ہے۔

اپنے ایک بیان میں صدر اسد نے کہا ہے کہ صدر مرسی کے ایک سالہ دورِ اقتدار نے مصری عوام کے سامنے 'اخوان المسلمون' کے "جھوٹے وعدوں کا پردہ" چاک کردیا ہے۔

شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر اسد نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ مصر میں آنے والی تبدیلی سے سیاسی اسلام کا نظریہ دم توڑ گیا ہے۔

ایران کی حکومت نے مصر میں آنے والی تبدیلی پر محتاط ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے مصری عوام پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے "جائز مطالبات" منوانے کے ساتھ ساتھ "ان مشکل حالات میں دشمنوں اور غیر ملکی مفادپرستوں" سے بھی خبردار رہے۔

مصر کے پڑوسی ملک اسرائیل نے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے پر کوئی مثبت ردِ عمل ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔ البتہ وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے عبوری صدر عدلی منصورکی تعیناتی کے بعد امید ظاہر کی ہے کہ ان کے دورِ اقتدار میں دونوں ممالک کے سرد تعلقات پھر سے بحال ہوسکیں گے۔

خطے کے ممالک میں سے ترکی وہ واحد ملک ہے جس نے مصر میں فوجی بغاوت کی سخت اور کھلے الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ایک "ناقابلِ قبول" قدم قرار دیا ہے۔

ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد اوغلو نے کہا ہے کہ جمہوری انتخابات کے نتیجے میں بننے والی ایک حکومت کو خفیہ طریقوں اور فوجی بغاوت کےنتیجے میں اقتدار سے محروم کرنا کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔

خیال رہے کہ ترکی کی فوج بھی ماضی میں کئی حکومتوں کا تختہ الٹ چکی ہے البتہ گزشتہ 10 برسوں سے برسرِ اقتدار وزیرِاعظم رجب طیب اردووان کی اسلام پسند حکومت کی کوششوں سے ترکی کی سیکولر فوج کے سیاست اور معاشرے پر اثرات میں نمایاں کمی آئی ہے۔

مغربی ممالک کی خاموشی

امریکہ سمیت بیشتر مغربی ممالک نے مصر میں آنے والی تبدیلی کو "فوجی بغاوت" قرار دینے سے گریز کیا ہے اور منتخب صدر کی برطرفی پر محتاط ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے مصر کی صورتِ حال کو "ابتر" قرار دیتے ہوئے ملک میں سول حکومت کی جلد از جلد بحالی پر زور دیا ہے۔

اپنے ایک بیان میں عالمی ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ اس موقع پر "مصری عوام کی خواہشات" کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

امریکہ کے صدر براک اوباما نے اپنے بیان میں فوجی اقدام کی مذمت سے گریز کرتے ہوئے مصری فوج پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد اختیارات ایک شفاف اور جمہوری طریقے سے منتخب کی جانے والی حکومت کے سپرد کردے۔

امریکی صدر نے اپنے بیان میں مصر میں آنے والی "تبدیلی" پر "گہری تشویش" ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصر کے مستقبل کا فیصلہ صرف وہاں کے عوام ہی کرسکتے ہیں۔

صدر اوباما نے اپنی انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے مصر کو دی جانے والی امداد کا بھی از سرِ نو جائزہ لیں۔

نیٹو کے سربراہ آندرے فوغ راسموسن نے بھی اپنے ایک بیان میں مصر کی صورتِ حال پر "گہری تشویش" ظاہر کرنے پر اکتفا کیا ہے۔

یورپی یونین نے بھی مصر میں اقتدار کی تبدیلی کے عمل پر "تشویش" ظاہر کی ہے لیکن اسے "فوجی بغاوت" کا نام دینے سے گریز کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے بقول مصری فوج کے اقدام کو "فوجی بغاوت" قرار دینے کی صورت میں امریکہ اور یورپی یونین سے مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ماضی کی روایات کے مطابق مصر کےخلاف اقتصادی پابندیاں عائد کریں۔