انڈونیشیا کے غار میں دنیا کی قدیم ترین پینٹنگ دریافت

انڈونیشیا کے جزیرے سلاویسی کے ایک چونے کے پتھروں کے غار کی چھت میں نایاب پینٹنگ دریافت، رائیٹرز

  • انڈونیشیا کے جزیرے سلاویسی میں غار میں 51 ہزار 200 برس قدیم پینٹنگ دریافت
  • پینٹنگ کی قدامت سے معلوم ہوتا ہے کہ غاروں کے آرٹ کی ابتدا یورپ سے نہیں ہوئی تھی، ریسرچرز
  • پینٹنگ کا آرٹ سادہ نہیں ہے جس سے ان انسانوں کی ترقی یافتہ ذہنی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں، ریسرچرز

دنیا کی قدیم ترین پینٹنگ انڈونیشیا کے جزیرے سلاویسی کے ایک چونے کے پتھروں کے غار کی چھت میں دریافت ہوئی ہے جو 51 ہزار 200 سال پرانی ہے اور اسے غاروں میں دنیا کی قدیم ترین پینٹنگ قرار دیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق سائنسدانوں نے یہ جاننے کے لیے کہ پینٹنگ کتنی قدیم ہے، ایک نیا سائنسی طریقہ کار استعمال کیا جس سے پتہ چلا ہے کہ یہ پینٹنگ کم از کم اکیاون ہزار دو سو برس پرانی ہے۔

SEE ALSO: چیونٹیاں بھی انسانوں کی طرح اپنے ساتھیوں کی سرجری کرتی ہیں، سائنسدان

اس طریقہ کار میں لیزر کے استعمال کے ذریعے اس کیلشئیم کاربونیٹ کے کرسٹل کی عمر دریافت کی جاتی ہے جو اس پینٹنگ کے اوپر قدرتی طور پر بن گیا ہے۔

اس پینٹنگ میں تین انسانوں کی شبیہ کے ساتھ ایک سور موجود ہے۔

اس پینٹنگ میں ایک منظر کھینچا گیا ہے، جو 36 انچ لمبا اور 15 انچ چوڑا ہے۔ اس غار میں سؤروں کی مزید شبیہیں موجود ہیں۔

تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ یہ منظر ایک کہانی بیان کر رہا ہے اور یہ اب تک کی قدیم ترین پینٹنگ ہے جو داستان بیان کرتی ہے۔

گرفتھ یونیورسٹی کے آثار قدیمہ کے ماہر ایڈم برم کا کہنا ہے کہ ان تین افراد اور اس سور کو جس طرح اس منظر میں پیش کیا گیا ہے،وہ ایک کہانی بیان کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی ریسرچرز کو علم نہیں ہے کہ یہ کہانی ہے کیا۔

SEE ALSO: سویڈن: ایک ڈالر فی مربع میٹرزمین کی پیش کش، پاکستان سمیت دنیا بھر سےخریداروں نے دوڑ لگادی

ریسرچرز نے سلاویسی جزیرے میں ایک اور غار میں موجود ایک پینٹنگ کی عمر دریافت کی تھی جو 48 ہزار سال قدیم تھی۔ اس پینٹنگ میں آدھا انسان، آدھا جانور نما شبیہ سوؤروں اور بھینسوں کا شکار کر رہی ہے۔

آسٹریلیا کی گرفتھ یونیورسٹی کی ہی ایک اور آثار قدیمہ کے ماہر میکسم اوبرٹ کا کہنا ہے کہ، ’’بطور انسان ہم اپنے آپ کو اس بات سے منفرد کرتے ہیں کہ ہم داستان گو ہیں، اور یہ داستان گوئی کا قدیم ترین ثبوت ہے۔‘‘

غاروں میں پینٹنگ کے ذریعے داستان گوئی کرنے والوں کی اس آبادی سے متعلق سائنسدانوں کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اوبرٹ کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ پینٹنگ نئے طریقہ کار سے متعین ہونے والی تاریخ سے بھی کئی ہزار برس قدیم ہو ۔ ان کے مطابق اس نئے طریقہ کار سے اس کے قدیم ہونے کے کم سےکم عرصے کا تعین ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں اس بات کا امکان ہے کہ 65 ہزار سال قبل پہلی دفعہ جب اس خطے میں انسان آباد ہوئے تھے، ان پینٹنگز کا تعلق ان سے ہو۔

محققین کا کہنا ہے کہ یہ پینٹنگ یورپ میں دریافت ہونے والے ابتدائی آرٹ سے کہیں قدیم ہے۔ سپین میں ایل کاسٹیلو میں ایک غار میں پینٹنگ دریافت ہوئی تھی جو 40 ہزار 8 سو برس قدیم تھی۔

SEE ALSO: اسمارٹ فون ایپ نے ایرانیوں کو راتوں رات امیر بننے کے جنون میں مبتلا کر دیا

اس کے علاوہ سپین میں مالٹراویسو کے غار میں ایک ہاتھ سے نقش کی گئی پینٹنگ دریافت ہوئی تھی جو 64 ہزار 5 سو برس قدیم بتائی جاتی ہے، اور اس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ نیانڈرتھلز نے بنائی تھی۔ بعض سائنسدان اس نقاشی کی عمر پر سوال اٹھاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ پینٹنگ انسانوں نے بنائی تھی۔

برم کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا میں ملنے والی اس پینٹنگ سے ثابت ہوتا ہے کہ غاروں میں آرٹ بنانے کی ابتدا یورپ میں نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ داستان گوئی انسانوں کی تاریخ کا بہت قدیم حصہ ہے۔

اوبرٹ کا کہنا تھا کہ سلاویسی میں پائی جانے والی پینٹنگ سادہ نہیں ہے، اور یہ اس زمانے کے انسانی کی ترقی یافتہ ذہنی صلاحیتوں پر روشنی ڈالتی ہے۔

اس خبر کے لیے خبر رساں ادارے رائٹرز سے مواد لیا گیا۔