افغانستان میں نئی حکومت کے لیے طالبان کی عبوری کابینہ میں شامل بعض نام امریکہ اور اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی فہرست میں ہیں۔ جس کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ عالمی برادری طالبان کی کابینہ تسلیم بھی کرے گی یا نہیں۔؟
طالبان کی نئی عبوری کابینہ کو اب تک کسی ملک نے تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ البتہ امریکہ نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے جب کہ علاقائی ملکوں کے درمیان ایک دوسرے سے رابطے شروع ہو گئے ہیں۔
عالمی برادری نے طالبان پر حکومت میں خواتین اور اقلیتوں کو شامل کرنے پر زور دیا تھا۔ اس کے برعکس طالبان نے منگل کو جس 33 رکنی کابینہ کا اعلان کیا اس میں ایک بھی خاتون شامل نہیں۔
طالبان کی عبوری کابینہ مردوں پر مشتمل ہے جس میں اقلیتوں کی نمائندگی کم اور صرف طالبان سے وابستہ شخصیات ہی اس کا حصہ ہیں۔
کابینہ میں وزارتِ داخلہ کا قلمدان سراج الدین حقانی کو دیا گیا ہے جو امریکی تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' کی مطلوب فہرست میں شامل ہیں اور ان کے سر کی قیمت 50 لاکھ امریکی ڈالر رکھی گئی ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے افغانستان کی نئی کابینہ میں صرف طالبان کی نمائندگی پر کہا کہ نئی انتظامیہ کو ان کے عمل سے پرکھا جائے گا۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے بیان میں مزید کہا ہے کہ 'دنیا طالبان حکومت کو بغور دیکھ رہی ہے۔'
دریں اثنا امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن قطر سے اپنا دورہ مکمل کر کے جرمنی پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران قطری حکام سے افغانستان کی صورتِ حال پر بھی بات چیت کی۔
بلنکن نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ انہوں نے قطر اور امریکہ ایک ساتھ مل کر خطے کی خوشحالی اور اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کریں گے۔
طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کو چین نے ضروری قدم قرار دیا ہے۔
چین کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ افغانستان کی سالمیت اور آزادی کا احترام کرتا ہے۔
دوسری جانب افغانستان کی صورتِ حال پر بدھ کو پاکستان کی سربراہی میں چھ علاقائی ملکوں کے وزرا کی ورچوئل کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں چین، ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرا شریک تھے۔
شاہ محمود قریشی کا کانفرنس سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ افغانستان سے متعلق تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئی ہیں۔ افغانستان میں کوئی خون ریزی نہیں ہوئی۔
بھارتی خبر رساں ادارے ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق دارالحکومت نئی دہلی میں افغانستان کی صورتِ حال پر اعلیٰ سطح کا اجلاس جاری ہے جس میں روس کا وفد بھی شریک ہے۔
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے افغانستان کی نگراں حکومت میں خواتین کو شامل نہ کرنے کا جائزہ لیا گیا ہے۔
افغانستان کی معاونت کے اقوامِ متحدہ کے مشن نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کا دار و مدار متنوع حکومت کے قیام پر ہے جس میں خواتین اور نوجوانوں کی مناسب نمائندگی کے ساتھ ساتھ نسلی و مذہبی گروہوں کی شمولیت بھی ہو۔
ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ افغان حکام کو امن اور استحکام کو ہر چیز سے بالا رکھنا چاہیے۔ افغان عوام کے دوستوں کے بنیادی تحفظات یہ ہیں کہ وہاں جامع حکومت کی ضرورت کو نظر انداز کیا گیا۔
ان کے بقول افغانستان میں بیرونی مداخلت اور بہت سے سماجی اور نسلی گروہوں کی جانب سے مذاکرات کے ذریعے مطالبات کو پورا کرنے کے بجائے ہتیھاروں کا استعمال کیا گیا۔
یاد رہے کہ طالبان نے 15 اگست کو کابل پر قبضے کے بعد حکومت سازی کے لیے تین ہفتوں سے زائد کا وقت لیا ہے اور اب بھی یہ واضح نہیں ہے کہ نئی عبوری کابینہ کب حلف اٹھائے گی۔