نوجوان ہوں یا بوڑھے ہر عمر اور ہر طبقے کے پاس موبائل کی سہولت اور انٹرنیٹ کا استعمال موجود ہے، جس کی وجہ سے ڈاک بھیجنے کے عمل میں بڑے پیمانے پر کمی آگئی ہے
ایک وقت تھا جب دوردراز رہنے والے پیاروں کی خیریت جاننے کے لئے ڈاکئے کا انتظارکیا جاتا تھاکہ کب ڈاکیا آئےگا اور پیاروں کی خیر خیریت دریافت ہوگی؟
شادی بیاہ ہو، خوشی ہو یا غم، رشتے داروں اور دوستوں کو تقریبات کے دعوت نامے بذریعہ خط یا ٹیلی گرام بھجوائے جاتے تھے۔
امتحانی رزلٹ بھی تقسیم کرنا ڈاکئے کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ ڈاکیا بھی اس وقت تک زرلٹ نہیں دیتا تھا جب تک اس کا منہ میٹھا نہیں کرادیاجاتا تھا۔
جیسے جیسے وقت نے ترقی کی ویسے ہی پیغام رسانی کا انداز بھی جدید انداز میں ڈھل گیا۔
ڈاک کی جگہ اب فیکس، اِی میلز، موبائل میسیج، سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ نے لے لی ہے۔ نوجوان ہوں یا بوڑھے ہر عمر اور ہر طبقے کے پاس موبائل کی سہولت اور انٹرنیٹ کا استعمال موجود ہےجس کی وجہ سے ڈاک بھیجنے کے عمل بڑے پیمانے پر کمی ہوگئی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 9 اکتوبر کو ڈا ک کا عا لمی دن منا یا جا تا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں خط و کتابت کے ذریعے ہونیوالے رابطوں اور پو سٹ کی اہمیت کو اجا گر کر نا ہے۔
دنیا میں پہلا پو سٹ کا عالمی دن 9 اکتو بر 1980 کو منایا گیا تھا۔
گزشتہ چند برسوں میں صرف پاکستان میں ڈاک میں 6 فیصد تک کمی آئی ہے۔محکمہٴ ڈاک میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد بھی ڈاک کے پیشے کی اس اہمیت میں کمی کے باٰعث گزرے برسو ں کی مناسبت سے کم ہوتی جارہی ہے۔ لوگ اس پیشے کے بجائے کسی دوسرے پیشے کو اختیار کررہے ہیں۔
وفاقی ادارہ شماریات کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ڈاک کے ذریعے خط وکتابت کی تعداد 35کروڑ 84لاکھ سے کم ہو کر35کروڑ25لاکھ رہ گئی ہے۔
کراچی کے ایک ڈاکئے الطاف خان نے وی او اے کی نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں جب میں کسی گھر میں خط ڈالنے جاتا تھا تو اس کے گھروالوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی جیسے ان کی کھوئی ہوئی چیز مل گئی ہو۔
’مگر اب، ایسا نہیں ہوتا۔ ڈاکئے کو کوئی نہیں پوچھتا۔ اب خط کے بجائے کاغذات زیادہ بھیجے جاتے ہیں‘۔
ایک اور بزرگ شہری نے بتایا کہ جب ہمارے محلے میں ڈاکیا آتا تھا تو سب اس کو گھیر کر بیٹھ جاتے تھے اور اپنے اپنے پیاروں کے خطوط کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ ایک اچھی بیٹھک لگتی تھی۔
’جوان نسل کو خط کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ ان کے ہاتھوں میں انٹرنیٹ ہے‘۔
یونیورسل پوسٹل یو نین ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں ڈاک کے ذریعے بھییجے جانے والےکل خطوط کی تعداد کا 5 سے 11 فیصد حصہ عام لوگوں کی جانب سے کیا جاتا ہے، جبکہ 80 فیصد ڈاک حکومتی عہدیداروں کی جانب سے بھیجے گئے خطوط اور کاغذات کی ہوتی ہے۔
موجودہ جدید دور میں ڈاکئے کی جگہ انٹرنیٹ اور اِی میلز کی تیز رسانی کا ذریعہ فائدہ مند تو ہے، مگر قلم سے لکھے گئے اور ڈاکئے کے ذریعے بھیجے گئے خطوط کی حیثیت ایک الگ مقام رکھتی ہے۔
شادی بیاہ ہو، خوشی ہو یا غم، رشتے داروں اور دوستوں کو تقریبات کے دعوت نامے بذریعہ خط یا ٹیلی گرام بھجوائے جاتے تھے۔
امتحانی رزلٹ بھی تقسیم کرنا ڈاکئے کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ ڈاکیا بھی اس وقت تک زرلٹ نہیں دیتا تھا جب تک اس کا منہ میٹھا نہیں کرادیاجاتا تھا۔
جیسے جیسے وقت نے ترقی کی ویسے ہی پیغام رسانی کا انداز بھی جدید انداز میں ڈھل گیا۔
ڈاک کی جگہ اب فیکس، اِی میلز، موبائل میسیج، سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ نے لے لی ہے۔ نوجوان ہوں یا بوڑھے ہر عمر اور ہر طبقے کے پاس موبائل کی سہولت اور انٹرنیٹ کا استعمال موجود ہےجس کی وجہ سے ڈاک بھیجنے کے عمل بڑے پیمانے پر کمی ہوگئی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 9 اکتوبر کو ڈا ک کا عا لمی دن منا یا جا تا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں خط و کتابت کے ذریعے ہونیوالے رابطوں اور پو سٹ کی اہمیت کو اجا گر کر نا ہے۔
دنیا میں پہلا پو سٹ کا عالمی دن 9 اکتو بر 1980 کو منایا گیا تھا۔
گزشتہ چند برسوں میں صرف پاکستان میں ڈاک میں 6 فیصد تک کمی آئی ہے۔محکمہٴ ڈاک میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد بھی ڈاک کے پیشے کی اس اہمیت میں کمی کے باٰعث گزرے برسو ں کی مناسبت سے کم ہوتی جارہی ہے۔ لوگ اس پیشے کے بجائے کسی دوسرے پیشے کو اختیار کررہے ہیں۔
وفاقی ادارہ شماریات کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ڈاک کے ذریعے خط وکتابت کی تعداد 35کروڑ 84لاکھ سے کم ہو کر35کروڑ25لاکھ رہ گئی ہے۔
کراچی کے ایک ڈاکئے الطاف خان نے وی او اے کی نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں جب میں کسی گھر میں خط ڈالنے جاتا تھا تو اس کے گھروالوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی جیسے ان کی کھوئی ہوئی چیز مل گئی ہو۔
’مگر اب، ایسا نہیں ہوتا۔ ڈاکئے کو کوئی نہیں پوچھتا۔ اب خط کے بجائے کاغذات زیادہ بھیجے جاتے ہیں‘۔
ایک اور بزرگ شہری نے بتایا کہ جب ہمارے محلے میں ڈاکیا آتا تھا تو سب اس کو گھیر کر بیٹھ جاتے تھے اور اپنے اپنے پیاروں کے خطوط کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ ایک اچھی بیٹھک لگتی تھی۔
’جوان نسل کو خط کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ ان کے ہاتھوں میں انٹرنیٹ ہے‘۔
یونیورسل پوسٹل یو نین ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں ڈاک کے ذریعے بھییجے جانے والےکل خطوط کی تعداد کا 5 سے 11 فیصد حصہ عام لوگوں کی جانب سے کیا جاتا ہے، جبکہ 80 فیصد ڈاک حکومتی عہدیداروں کی جانب سے بھیجے گئے خطوط اور کاغذات کی ہوتی ہے۔
موجودہ جدید دور میں ڈاکئے کی جگہ انٹرنیٹ اور اِی میلز کی تیز رسانی کا ذریعہ فائدہ مند تو ہے، مگر قلم سے لکھے گئے اور ڈاکئے کے ذریعے بھیجے گئے خطوط کی حیثیت ایک الگ مقام رکھتی ہے۔