یہ 193 رکنی جنرل اسمبلی کا 68 واں سربراہی اجلاس ہوگا جو لگ بھگ دو ہفتے جاری رہے گا۔
واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے مختلف ممالک کے سربراہان اور رہنماؤں کی امریکہ کے شہر نیویارک آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما بھی پیر کو نیویارک پہنچ گئے ہیں جہاں منگل کو جنرل اسمبلی کا سربراہی اجلاس شروع ہوگا۔ خاتونِ اول مشیل اوباما بھی ان کے ہمراہ ہیں۔
یہ 193 رکنی جنرل اسمبلی کا 68 واں سربراہی اجلاس ہوگا جو لگ بھگ دو ہفتے جاری رہے گا۔ لیکن صدر اوباما نیویارک میں صرف دو روز قیام کریں گے جس کے دوران میں ان کی کئی عالمی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں متوقع ہیں۔
صدر اوباما کے نائب مشیر برائے قومی سلامتی بین رہوڈز کے مطابق صدر نیویارک میں اپنے قیام کے دوران میں جنرل اسمبلی کے افتتاحی سیشن سے خطاب کے علاوہ نائجیریا، لبنان، فلسطین کے صدور اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
امکان ہے کہ شام میں 21 اگست کو ہونے والا کیمیائی حملہ صدر اوباما کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا مرکزی موضوع ہوگا جب کہ وہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی اور ایران کے جوہری پروگرام پر بھی اظہارِ خیال کریں گے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پیر کو لندن سے نیویارک روانہ ہوگئے ہیں۔ وہ جمعے کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔
وزیرِاعظم نیویارک میں اپنے قیام کے دوران میں چین، ایران ور جاپان سمیت کئی ممالک کے سربراہان سےبھی ملاقاتیں کریں گے۔ تاہم ان کی سب سے اہم ملاقات پڑوسی ملک بھارت کے وزیرِاعظم من موہن سنگھ کے ساتھ متوقع ہے۔
خیال ہے کہ اس بار جنرل اسمبلی کا ماحول نسبتاً "امریکہ دوست" رہے گا جہاں ماضی میں ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد اور وینزویلا کے آنجہانی صدر ہیوگو شاویز امریکی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔
ایران کے نئے صدر حسن روحانی اپنے پیش رو کی نسبت زیادہ معتدل مزاج سمجھے جاتے ہیں جو اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکہ کے ساتھ جاری تنازع کو خوش اسلوبی سے طے کرنے پر زوردیتے آئے ہیں۔
صدر روحانی بھی منگل کو جنرل اسمبلی کے پہلے روز خطاب کریں گے جب کہ نیویارک میں ان کا قیام پانچ روز تک رہے گا جس کے دوران میں وہ کئی اہم عالمی رہنماؤں کے علاوہ امریکی میڈیا کی صفِ اول کی شخصیات، سینئر سفارت کاروں اور خارجہ پالیسی کے ماہرین کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے۔
دورے کے دوران میں صدر روحانی کے امریکی تھنک ٹینکس اور نیویارک میں مقیم سیکڑوں ایرانی نژاد امریکی شہریوں کے عشائیے سے خطاب بھی متوقع ہیں۔
امریکہ کے صدر براک اوباما بھی پیر کو نیویارک پہنچ گئے ہیں جہاں منگل کو جنرل اسمبلی کا سربراہی اجلاس شروع ہوگا۔ خاتونِ اول مشیل اوباما بھی ان کے ہمراہ ہیں۔
یہ 193 رکنی جنرل اسمبلی کا 68 واں سربراہی اجلاس ہوگا جو لگ بھگ دو ہفتے جاری رہے گا۔ لیکن صدر اوباما نیویارک میں صرف دو روز قیام کریں گے جس کے دوران میں ان کی کئی عالمی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں متوقع ہیں۔
صدر اوباما کے نائب مشیر برائے قومی سلامتی بین رہوڈز کے مطابق صدر نیویارک میں اپنے قیام کے دوران میں جنرل اسمبلی کے افتتاحی سیشن سے خطاب کے علاوہ نائجیریا، لبنان، فلسطین کے صدور اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
امکان ہے کہ شام میں 21 اگست کو ہونے والا کیمیائی حملہ صدر اوباما کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا مرکزی موضوع ہوگا جب کہ وہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی اور ایران کے جوہری پروگرام پر بھی اظہارِ خیال کریں گے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پیر کو لندن سے نیویارک روانہ ہوگئے ہیں۔ وہ جمعے کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔
وزیرِاعظم نیویارک میں اپنے قیام کے دوران میں چین، ایران ور جاپان سمیت کئی ممالک کے سربراہان سےبھی ملاقاتیں کریں گے۔ تاہم ان کی سب سے اہم ملاقات پڑوسی ملک بھارت کے وزیرِاعظم من موہن سنگھ کے ساتھ متوقع ہے۔
خیال ہے کہ اس بار جنرل اسمبلی کا ماحول نسبتاً "امریکہ دوست" رہے گا جہاں ماضی میں ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد اور وینزویلا کے آنجہانی صدر ہیوگو شاویز امریکی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔
ایران کے نئے صدر حسن روحانی اپنے پیش رو کی نسبت زیادہ معتدل مزاج سمجھے جاتے ہیں جو اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکہ کے ساتھ جاری تنازع کو خوش اسلوبی سے طے کرنے پر زوردیتے آئے ہیں۔
صدر روحانی بھی منگل کو جنرل اسمبلی کے پہلے روز خطاب کریں گے جب کہ نیویارک میں ان کا قیام پانچ روز تک رہے گا جس کے دوران میں وہ کئی اہم عالمی رہنماؤں کے علاوہ امریکی میڈیا کی صفِ اول کی شخصیات، سینئر سفارت کاروں اور خارجہ پالیسی کے ماہرین کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے۔
دورے کے دوران میں صدر روحانی کے امریکی تھنک ٹینکس اور نیویارک میں مقیم سیکڑوں ایرانی نژاد امریکی شہریوں کے عشائیے سے خطاب بھی متوقع ہیں۔