دنیا کی سات بڑی اقتصادی طاقتوں نے جنوبی اور مشرقی بحیرہٴ چین میں ہونے والی کارروائیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ چین کو اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے
واشنگٹن —
برسلز میں جی سیون گروپ کے اجلاس میں یوکرین کے مسئلے کے ساتھ ساتھ جنوب اور مشرقی بحیرہٴ چین میں زور پکڑنے والا تناؤ بھی زیر ِبحث رہا۔
دنیا کی سات بڑی اقتصادی طاقتوں نے جنوب اور مشرقی بحیرہٴچین میں ہونے والی کارروائیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ چین کو اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ چین کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ سمندری حدود کے تنازعات ہیں، اور بظاہر یہ تنازعات گہرے ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
برسلز میں جی سیون ممالک کی ملاقات کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ جنوبی اور مشرقی بحیرہٴچین میں سمندری حدود کا بزور ِطاقت تعین کیا جانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
چین اور جاپان دونوں ہی مشرقی بحیرہٴچین میں سمندری پانیوں کی حدود پر اختلاف رکھتے ہیں اور دونوں ممالک کا دعویٰ ہے کہ یہ حدود ان کی ملکیت ہیں۔
2012ء میں جاپان نے ان سمندری حدود میں موجود چند جزیروں کو اپنی ملکیت قرار دیا تھا۔
جاپان کی جانب سے اس عمل کے بعد چین نے جاپان کی جانب سے اپنی ملکیت قرار دیئے جانے والے علاقے میں فضائی حدود کو اپنی ملکیت قرار دیا تھا۔
دوسری جانب، جنوب بحیرہٴچین میں بھی چین کا ویتنام کے ساتھ تنازعہ جاری ہے۔ چین کی جانب سے ایک آئیل رگ کو ویتنام کے پانیوں اور ہنوئی کے ساحل کے قریب نصب کیا گیا تھا جس پر ویتنام کو اعتراض ہے۔ آئیل رگ کی تنصیب کے بعد سے دونوں ممالک کے بحری بیڑوں کے درمیان گولہ باری بھی کی جا چکی ہے۔
جنوب بحیرہٴچین میں چین کی جانب سے جن پانیوں کو چین کی ملکیت قرار دیا جاتا ہے اس میں فلپائن، ملیشیا، برونائی اور تائیوان کی حدود بھی شامل ہیں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ ان تنازعات سے دور رہنا چاہتا ہے، مگر وہ ان معاملات میں چین کو شدید تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔
امریکی وزیر ِدفاع چک ہیگل نے چین کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کو خطے کے لیے ’عدم استحکام‘ کی باعث کوشش قرار دیا۔
دوسری جانب، چین اِس قسم کے بیانات کو اپنے معاملات میں دخل اندازی قرار دیتا ہے۔ چین کی جانب سے جی سیون گروپ کے اعلامیے کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
دنیا کی سات بڑی اقتصادی طاقتوں نے جنوب اور مشرقی بحیرہٴچین میں ہونے والی کارروائیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ چین کو اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ چین کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ سمندری حدود کے تنازعات ہیں، اور بظاہر یہ تنازعات گہرے ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
برسلز میں جی سیون ممالک کی ملاقات کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ جنوبی اور مشرقی بحیرہٴچین میں سمندری حدود کا بزور ِطاقت تعین کیا جانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
چین اور جاپان دونوں ہی مشرقی بحیرہٴچین میں سمندری پانیوں کی حدود پر اختلاف رکھتے ہیں اور دونوں ممالک کا دعویٰ ہے کہ یہ حدود ان کی ملکیت ہیں۔
2012ء میں جاپان نے ان سمندری حدود میں موجود چند جزیروں کو اپنی ملکیت قرار دیا تھا۔
جاپان کی جانب سے اس عمل کے بعد چین نے جاپان کی جانب سے اپنی ملکیت قرار دیئے جانے والے علاقے میں فضائی حدود کو اپنی ملکیت قرار دیا تھا۔
دوسری جانب، جنوب بحیرہٴچین میں بھی چین کا ویتنام کے ساتھ تنازعہ جاری ہے۔ چین کی جانب سے ایک آئیل رگ کو ویتنام کے پانیوں اور ہنوئی کے ساحل کے قریب نصب کیا گیا تھا جس پر ویتنام کو اعتراض ہے۔ آئیل رگ کی تنصیب کے بعد سے دونوں ممالک کے بحری بیڑوں کے درمیان گولہ باری بھی کی جا چکی ہے۔
جنوب بحیرہٴچین میں چین کی جانب سے جن پانیوں کو چین کی ملکیت قرار دیا جاتا ہے اس میں فلپائن، ملیشیا، برونائی اور تائیوان کی حدود بھی شامل ہیں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ ان تنازعات سے دور رہنا چاہتا ہے، مگر وہ ان معاملات میں چین کو شدید تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔
امریکی وزیر ِدفاع چک ہیگل نے چین کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کو خطے کے لیے ’عدم استحکام‘ کی باعث کوشش قرار دیا۔
دوسری جانب، چین اِس قسم کے بیانات کو اپنے معاملات میں دخل اندازی قرار دیتا ہے۔ چین کی جانب سے جی سیون گروپ کے اعلامیے کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔