جرمنی کے دارالحکومت برلن میں لیبیا کے تنازع پر ایک روزہ سربراہی اجلاس میں عالمی رہنماؤں نے اتفاق کیا ہے کہ وہاں بیرونی مداخلت اور فریقین کو اسلحے کی فراہمی پر ممانعت برقرار رکھی جائے گی۔
خیال رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے سے دو حکومتیں قائم ہیں اور دونوں میں اقتدار کے حصول کے لیے خانہ جنگی جاری ہے۔
مشرقی لیبیا پر فوجی جنرل خلیفہ حفتر حکمرانی کر رہے ہیں جب کہ دارالحکومت طرابلس میں وزیر اعظم فیاض السراج کی قیادت میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہے۔
مشرقی لیبیا کی فورسز کے کمانڈر جنرل خلیفہ حفتر نے طرابلس کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے اپریل 2019 میں حملے شروع کیے تھے جس پر اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کا کنٹرول برقرار ہے۔
لیبیا کے مشرقی اور مغربی حصوں پر دونوں گروپس کا اقتدار ان ملیشیاؤں کے مرہون منت ہے جو ان کی مدد کر رہی ہیں۔
پچھلے مہینے اقوام متحدہ کے ایک سیکیورٹی ماہر نے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ترکی، اردن، متحدہ عرب امارات اور ان کے اتحادی لیبیا کے متحارب گروپس کو باقاعدگی سے ہتھیار اور گولا بارود فراہم کر رہے ہیں۔
طرابلس کی حکومت کو قطر، اٹلی اور ترکی کی حمایت حاصل ہے۔
جرمنی کے دارالحکومت برلن میں اتوار کو لیبیا کے تنازع پر ایک روزہ سربراہی اجلاس ہوا جس میں یورپی یونین، اقوام متحدہ، افریقن یونین، عرب لیگ کے نمائندوں سمیت 12 عالمی رہنما شریک ہوئے۔ تاہم اس میں لیبیا کے متحارب گروہوں کی قیادت کرنے والے وزیر اعظم فیاض السراج اور جنرل خلیفہ حفتر موجود نہیں تھے۔
اجلاس کی میزبان جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ فریقین کو اسلحے کی فراہمی پر ممانعت کو تسلیم کیا جائے جب کہ اس پابندی مزید سختی سے اطلاق کیا جائے۔ ماضی میں بھی ایسا کیا جاتا رہا ہے۔
انجیلا مرکل نے مزید کہا کہ میرے خیال میں گزشتہ چند روز میں ثابت ہوا ہے کہ اس تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ طاقت کے استعمال سے عام عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
سمٹ کے شرکا نے اتفاق کیا کہ لیبیا میں دو ہفتے قبل فریقین میں جنگ بندی کا عمل مزید پائیدار ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ لیبیا میں متحارب گروہوں پر تمام اطراف سے دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ لیبیا میں مختلف ممالک الگ الگ فریقین کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ لیبیا بھی کہیں مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک شام کی صورت اختیار نہ کر جائے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ اب سے پہلے تک لیبیا میں بیرونی مداخلت سے تنازع کو مزید شدید کیا جاتا رہا ہے۔ اس تنازع کی شدت میں اضافہ خطرناک ہو سکتا تھا۔
سمٹ میں شریک ممالک کے رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ وہ لیبیا میں اپنے حامی فریقین کی فوجی استطاعت میں مزید اضافہ نہیں کریں گے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ مختلف ممالک کب اور کیسے اپنے حامی فریقین کی موجودہ حمایت میں کمی لائیں گے۔
فریقین کے لیے مختلف ممالک کی حمایت ختم ہونے کے حوالے سے جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا کہ یہ جنگ بندی کے لیے سب سے بڑا سوال ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے زور دیا کہ لیبیا میں میں فریقین کو اقوام متحدہ کے ثالثی کے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس سے وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتے ہیں جب کہ یہ طریقہ بیرونی مداخلت سے ہونے والے تشدد سے بھی آزاد ہے۔
مائیک پومپیو نے سوال اٹھایا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ فریقین کو اسلحہ فراہمی کی ممانعت کی نگرانی کتنے مؤثر انداز سے کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ لیبیا کی معیشت کا دار و مدار تیل کی فروخت پر ہے۔ دو ہفتے قبل طرابلس اور بن غازی کے درمیان واقع شہر سرت پر فوجی جنرل خلیفہ حفتر کی فورسز نے قبضہ کیا تھا۔ گزشتہ روز لیبیا کی نیشنل آئل کارپوریشن نے اعلان کیا تھا کہ سرت پر قبضے کے بعد کمانڈر حفتر کی فورسز نے دو پائپ لائنز تباہ کر دی ہیں جس کی وجہ سے دو بڑی آئل فیلڈز بند کر دی گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اس صورت حال کو انتہائی پریشان کن قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ لیبیا گزشتہ ایک دہائی سے سیاسی اور معاشی طور پر انتشار کا شکار ہے۔ 2011 میں طویل عرصے تک لیبیا کے حکمران رہنے والے معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا جب انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے کئی عسکری گروہ حکمرانی کے حصول لڑ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کو بھی لیبیا میں ایک مستحکم حکومت کے قیام میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔