پاکستان بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے زیادہ تر تھرمل بجلی گھروں کے منصوبوں پرانحصار کررہاہے جن سے حاصل ہونے والی بجلی نہ صرف یہ کہ بہت مہنگی ہوتی ہے بلکہ اس سے بڑے پیمانے پر گرین ہاؤس گیسیں بھی خارج ہوتی ہیں، جنہیں فضائی آلودگی اور گلوبل وارمنگ کا ایک بڑا سبب سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ دوسری جانب ترقی پذیر ملک توانائی کے ایسے منصوبے آگے بڑھارہے ہیں جن سے انتہائی کم لاگت پر ماحول دوست بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔
ماہرین ہوا سے بجلی کے حصول کو ایک باکفایت اور محفوظ ذریعہ سمجھتے ہیں اور دنیا کے کئی ملکوں میں ہوا سے چلنے والے ٹربائن لگائے جارہے ہیں۔
ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ کے مطابق ہوا سے چلنے والے ٹربائنوں کا دنیا کا سب سے بڑا پراجیکٹ حال ہی میں برطانیہ میں مکمل ہوا ہے۔ رودبار انگلستان کے ساحلی علاقے کینٹ میں قائم کیے جانے والے تھانٹ ونڈ فارم میں 100 انتہائی طاقت ور ٹربائن لگائے گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں سے حاصل ہونے والی بجلی دولاکھ سےزیادہ گھروں کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوگی۔
اکثرساحلی علاقوں میں زیادہ تر تیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں ، جن کی مدد سے بجلی پیدا کرنے والے ٹربائن باآسانی چلائے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی ساحلی پٹی میں اس طرح کے منصوبوں کے لیے بڑی گنجائش موجود ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ہوائی چکیوں کے ذریعے جتنی بجلی پیدا کی جارہی ہے ، تھانٹ ونڈ فارم اس کے ایک تہائی کے برابربجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
برطانیہ کے توانائی کے وزیر کرس ہیون کا کہنا ہے کہ اس نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے نہ صرف ماحول کو نقصان پہنچانے والی کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی آئے گی بلکہ اس سے ماحول دوست روزگارکے بہت سے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
اس نئے برقی پلانٹ کی تعمیر کے بعد برطانیہ کے ساحلی علاقوں میں بڑے سائز کے برقی ٹربائنوں کی تعداد بڑھ کر 436 ہوگئی ہے، جب کہ ڈھائی ہزار سے زیادہ چھوٹے ٹربائن دوسرے کئی علاقوں میں پہلے سے موجود ہیں۔
ہوا کی قوت سے بجلی کے حصول میں برطانیہ کی دلچسپی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ساحلی علاقوں میں تقریباً مزید ایک ہزار ٹربائنوں کی تنصیب جاری ہے اور 2300 کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ برطانوی حکومت آئندہ چند برسوں میں اپنے ساحلوں پر چھ ہزار جب کہ سمندر کے اندر چار ہزار ٹربائن لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
متبادل توانائی کے ادارے کی سربراہ ماریہ مک کیفری کا کہنا ہے کہ اگلے عشرے تک برطانیہ میں بجلی کی کل پیداوار میں ہوا سے حاصل ہونے والی بجلی کا حصہ بڑھ کر تقربیاً 30 فی صد ہوجائے گا اور ہم اسے برآمد کرسکیں گے۔ جب کہ اس وقت یہ شرح چار فی صد ہے اوران سے تقریباً پانچ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تھانٹ ونڈ فارم کی تکمیل سے یہ شرح پانچ فی صد ہوجائے گی اور جو لگ بھگ تین لاکھ گھروں کو روشن کرنے کے لیے کافی ہے۔
پاکستان میں جہاں ایک طرف بجلی کی شدید قلت ہے وہاں عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں مطابق ابھی تک 47000 دیہات بجلی سے محروم ہیں اور پاکستان میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آئندہ پانچ برسوں میں تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
پاکستان توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے بجلی کے اس متبادل ذریعے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔