گزشتہ 16 برس کے عرصے میں عالمی متوقع اوسط عمر میں ساڑھے پانچ سال کا اضافہ ہوا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ اضافہ نئی صدی کے آغاز پر 2000 سے 2016 کی مدت کے دوران دیکھنے میں آیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متوقع اوسط عمر میں اضافے کے باوجود امیر اور غریب ملکوں میں عمروں میں واضح فرق بدستور برقرار ہے۔
ماہرین نے یہ توقع ظاہر کی ہے کہ 2016 میں پیدا ہونے والے بچے 72 سال کی عمر تک جینے کی توقع کر سکتے ہیں جب کہ 2016 میں یہ سطح 66 سال اور 6 مہینے تھی۔
عالمی ادارہ صحت کے سالانہ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ 16 برسوں میں عالمی متوقع عمر میں نمایاں اضافے کی وجہ غریب ملکوں، جن میں قرن صحارا کے ممالک بطور خاص شامل ہیں، پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں ڈرامائی کمی ہے۔ ان ملکوں میں ملیریا، خسرہ اور دوسری وبائی امراض بچوں کی ہلاکتوں کا بنیادی سبب ہیں۔
متوقع اوسط عمر میں اضافے کی ایک اور وجہ ایچ آئی وی ایڈز پر قابو پانے میں نمایاں کامیابی ہے، جسے 1990 کے عشرے میں موت کے پروانے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
عالمی متوقع عمر میں نمایاں اضافے کے باوجود اس پیمانے پر امیر اور غریب ملکوں کے درمیان 18 برس کا نمایاں فرق ہے۔
مثال کے طور پر لسوتھو میں متوقع عمر کا اندازہ 52 یا 53 سال اور وسطی افریقہ میں 53 سال لگایا گیا ہے جب کہ سوئٹزرلینڈ کے لیے یہ اوسط 83 اور جاپان میں 84 سال سے زیادہ ہے۔
رپورٹ مرتب کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پہلو کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ امیر ملکوں میں زیادہ تر اموات بوڑھوں کی ہوتی ہیں جب کہ اس کے برعکس غریب ملکوں میں مرنے والا ہر تیسرا فرد پانچ سال سے کم عمر کا بچہ ہوتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ جنس کے لحاظ سے بھی حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں اور لمبی عمر پانے والوں میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
لیکن دوسری جانب جب پیدائش کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جاتی ہے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ اس سال کے تخمینے میں 73 ملین لڑکوں کے پیدا ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں رواں سال میں 68 ملین کے لگ بھگ لڑکیوں کی پیدائش کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ زیادہ تعداد میں لڑکوں کی پیدائش کا مجموعی طور پر عورتوں اور مردوں کی تعداد کے تناسب پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ لڑکوں اور مردوں کی اموات کا شرح لڑکیوں اور عورتوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ دنیا بھر میں متوقع عمر میں اضافہ ہوا ہے، گزشتہ 8 سال کی جنگ کے نتیجے میں شام میں متوقع اوسط عمر میں تقربیاً 10 سال کی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ سن 2000 میں شام میں متوقع اوسط عمر تقریباً 73 سال تھی، جو جنگ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے بعد 2016 میں گھٹ کر 63 سال اور 8 مہینے رہ گئی۔