ورلڈ کپ 2011 : قیادت سے محروم پاکستانی ٹیم کا ایک جائزہ

ورلڈ کپ 2011 : قیادت سے محروم پاکستانی ٹیم کا ایک جائزہ

خدشہ ہے کہ پی سی بی کے فیصلہ کی قیمت کہیں ٹیم کو چکانی نہ پڑ جائے

دنیائے کرکٹ میں بڑی بے صبری سے11ویں ورلڈ کپ کا انتظار کیا جارہا ہے اور کرکٹ کے کھیل کے سب سے بڑے ایونٹ میں حصہ لینے والی تمام ٹیموں کی تیاری آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے عالمی کپ میں شریک ٹیموں کیلئے اپنے اپنے حتمی 15 رکنی اسکواڈز کے ناموں کا اعلان کرنے کی آج یعنی 19 جنوری آخری تاریخ مقرر کی گئی تھی جس کے پیشِ نظر تمام 14 متعلقہ بورڈز کی جانب سے قومی ٹیموں کے اعلانات کا سلسلہ بھی آج مکمل ہوگیا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے 19 فروری سے شروع ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کیلئے 15 رکنی قومی ٹیم کا اعلان گزشتہ روز کردیا گیا تھا تاہم پی سی بی یہ فیصلہ کرنے میں ناکام رہا تھا کہ اس اہم ٹورنامنٹ میں پا کستانی کرکٹ ٹیم کی قیادت کون کرے گا اور بورڈ کی جانب سے عالمی کپ کیلئے ٹیم کے کپتان کا اعلان نیوزی لینڈ کے خلاف 22 جنوری سے شروع ہونے والی ون ڈے سیریز کے اختتام تک موخر کردیا گیا تھا۔

آفریدی بمقابلہ مصباح


بورڈ حکام کا کہنا ہے کہ سلیکٹرز نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کے دوران کپتان شاہد آفریدی کی کارکردگی کا بغور جائزہ لے کر انہیں کپتان برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کریں گے۔ میڈیا میں پہلے ہی یہ اطلاعات گردش کرتی رہی ہیں کہ بورڈ آفیشلز آفریدی کے میڈیا میں دئیے گئے کئی ایک بیانات کی وجہ سے ان سے ناخوش ہیں جن میں وہ بورڈ کے فیصلوں کو کھلم کھلا تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

کپتان کے نام کا اعلان نہ کیے جانے کے باعث نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلی جانے والی ون ڈے سیریز میں موجودہ کپتان شاہد آفریدی پر دباوٴ بہت بڑھ گیا ہے اور کرکٹ مبصرین بجا طور پر اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ آفریدی اس سیریز میں ٹیم کی بجائے اپنی قیادت کو بچانے کی جدوجہد کرتے نظر آئیں گے۔

بورڈ کی جانب سے اس عاقبت نااندیشی پہ مبنی فیصلے سے یہ خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز شاہد آفریدی اور مصباح الحق کی سیریز بن کر رہ جائے گی۔ مصباح الحق قومی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے قائد ہیں اور انھیں پی سی بی کی جانب سے نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں شاہد آفریدی کا نائب مقرر کیا گیا ہے۔ اب اگر شاہد آفریدی سیریز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے تو قوی امکان ہے کہ بورڈ کی جانب سے ورلڈ کپ کیلئے مصباح الحق کو قومی ٹیم کا کپتان نامزد کر دیا جائے۔

یہ بات دونوں کھلاڑی بھی جانتے ہیں کہ کپتان کا "ہما" کسی ایک کے سر پر بیٹھنا ہے اور اس صورت میں عین ممکن ہے کہ ان دونوں کھلاڑیوں کے درمیان نیوزی لینڈ کی سیریز کے دوران کسی قسم کی چپقلش بھی جنم لے۔ اس صورت میں نقصان ظاہر ہے کہ پاکستانی ٹیم کو ہی پہنچے گا اور ورلڈ کپ سے عین قبل اگر پاکستانی ٹیم ایسے کسی تجربے سے گزری تو اس کے مورال کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

محمد یوسف "ان فِٹ"؟؟؟
18 جنوری کو پی سی بی کی جانب سے ورلڈ کپ 2011 کیلئے جن 15 کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے ان میں پاکستانی رن مشین محمد یوسف کو شامل نہیں کیا گیا۔

محمد یوسف ون ڈے کرکٹ میں 9000سے زائد رنز بنا چکے ہیں۔ بورڈ کی جانب سے انھیں انجرڈ قرار دے کر ٹیم سے ڈراپ کیا گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جس دن ٹیم کا اعلان ہوا عین اسی روز محمد یوسف نے ایک ڈومیسٹک ون ڈے کرکٹ ٹورنامنٹ میں لاہور لائنز کی جانب سے 81رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔ یہ اس ٹورنامنٹ میں ان کی مسلسل دوسری نصف سنچری تھی۔

اسپورٹس کے حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں بھی کی جارہی ہیں کہ مصباح الحق کی ون ڈے ٹیم میں جگہ بنانے کیلئے محمد یوسف کو ڈراپ کیا گیا ہے۔ کرکٹ کے کئی مبصرین پہلے ہی مصباح الحق کی اسکواڈ میں شمولیت پر اپنی حیرت کا اظہار کرچکے ہیں کیونکہ موصوف کا ون ڈے ریکارڈ کچھ ایسا خاطر خواہ نہیں رہا۔ اگر تو اس قیاس آرائی کو درست مان لیا جائے کہ محمد یوسف کو "ان فٹ" قرار دینے کا مقصد مصباح الحق کی ٹیم میں جگہ پکی کرنا تھا، تو پھر سمجھئے کہ شاہد آفریدی کیلئے خطرے کی گھنٹی بج گئی۔

قومی ٹیم کی بالنگ سائیڈ

اسپاٹ فکسنگ کے الزام کے تحت معطل محمد عامر اور محمد آصف کے ٹیم میں موجود نہ ہونے کے باعث گزشتہ کئی میچز میں پاکستانی با ولنگ اٹیک خاصی پریشانی کا شکار نظر آرہا تھا جسے کسی حد تک جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو میں 6 وکٹیں لینے والے تنویر احمد نے سنبھالا دیا۔

تنویر نے نیوزی لینڈ کے خلاف حالیہ ٹیسٹ سیریز میں بھی اچھی باولنگ کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ورلڈ کپ کے اسکواڈ سے انہیں ڈراپ کر کے گزشتہ دو سال سے انٹرنیشنل میچز سے باہر لیفٹ آرم باولر سہیل تنویر کو ٹیم میں شامل کرلیا گیا ہے۔

اب قومی ٹیم کی بالنگ سائیڈ کی صورت کچھ یوں بنتی ہے کہ تمام تر پریشر شعیب اختر، وہاب ریاض اور عمر گل پر ہوگا۔ مذکورہ تینوں باوٴلر اکثر فٹنس مسائل کا شکار ہتے ہیں اور اگر ورلڈ کپ کے دوران ان میں سے کوئی ایک بھی "ان فِٹ" ہوا تو پاکستانی ٹیم مزید مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔

پاکستان کے ورلڈ کپ کے ابتدائی راؤنڈ کے تمام 6 میچز سری لنکا میں ہیں اور وہاں کی پچیں اسپن باوٴلنگ کیلئے زیادہ معاون ثابت ہوتی ہیں۔ قومی ٹیم کے اسپن ڈیپارٹمنٹ میں سعید اجمل اور عبدالرحمن ہوں گے جبکہ شاہد آفریدی اور محمد حفیظ بھی ان کا ساتھ دیں گے۔ کرکٹ کے پنڈتوں کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کا سب سے مضبوط شعبہ اسپن باوٴلنگ کا ہے اور پاکستانی ٹیم کا پچاس سے ساٹھ فیصد انحصار اسی پر ہوگا۔

بیٹنگ لائن

ورلڈ کپ اسکواڈ میں اوپننگ بیٹس مین محمد حفیظ کے ساتھ احمد شہزاد کی شمولیت بھی حیران کن ہے۔ احمد شہزاد نے گزشتہ سال قومی ٹیم کی جانب سے ایک بھی ون ڈے انٹرنیشنل میچ نہیں کھیلا لیکن اس کے باوجود کرکٹ کے اہم ترین ٹورنامنٹ کیلیے ان کا انتخاب کئی حلقوں کیلیے باعثِ حیرت ہے۔

ادھر توفیق عمر نے جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کے خلاف حالیہ سیریز میں اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا ہے اور محمد حفیظ کے ساتھ ان کی جوڑی کافی کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ لیکن ان کی اس کارکردگی کے باوجود سلیکٹرز کی جانب سے ورلڈ کپ کیلئے انہیں اہمیت نہیں دی گئی۔

پاکستانی مڈل آرڈر بیٹنگ بسا اوقات دباؤ کا شکار ہو کر لڑکھڑا جاتی ہے اور ایسے میں ٹیم کو مڈل آرڈر محمد یوسف کی کمی شدت سے محسوس ہوگی۔ تاہم محمد یوسف کی عدم موجودگی کے باعث مڈل آرڈر میں یونس خان اور مصباح الحق چارج لیں گے اور ان کے ساتھ اسد شفیق اور عمر اکمل ہوں گے۔ عمر اکمل کو ٹیم میں شامل تو کر لیا گیا ہے لیکن وہ گزشتہ کچھ عرصے سے عالمی کرکٹ سے دور ہیں لہذا ان کی پرفارمنس متاثر ہوسکتی ہے۔ تاہم اسد شفیق کی ٹیم میں موجودگی خوش آئند ہے کیونکہ وہ اس وقت اچھی فارم میں ہیں۔

انگلینڈ،جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کے خلاف تسلسل کے ساتھ پرفارم کرنے والے ابھرتے ہوئے نوجوان بیٹسمین اظہر علی کو حیرت انگیز طور پر ورلڈ کپ کیلئے اعلان کردہ قومی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔

آل راوٴنڈرز میں شاہد خان آفریدی اور عبدرالرزاق پر تکیہ کیا گیا ہے۔ دونوں میچ وننگ پلیئرز ہیں اور کسی بھی میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ البتہ عبدالرزاق کی باوٴلنگ سے بہت سے کرکٹ شائقین و ماہرین مطمئن نظر نہیں آتے کیونکہ ان کے بقول اب ان کی گیند میں پہلے جیسی کاٹ نہیں رہی۔