پاکستان میں بھی بے شمار افراد ایسے ہیں جو جانوروں کو پالنے کا شوق رکھتے ہیں اور ان جانوروں میں بلیاں، کتے، خرگوش، بھیڑ، بکریاں، گھوڑے، شیر کے بچے، مختلف اقسام کے پرندے، مرغے مرغیاں طوطے وغیرہ شامل ہیں
انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور بھی خطہ ارض کا حصہ ہیں۔ انسان کی انسان سے محبت اور خلوص تو عام بات ہے، لیکن انسان کی جانور سے محبت ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ دنیا میں انسان کی جانوروں سے محبت کی مثالیں موجود ہیں۔
انسانوں کی جانوروں کے درمیان اس محبت کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے اور جانوروں کے تحفظ کے لئیے 1931ء کو دنیا کا پہلا جانوروں کا عالمی دن اٹلی میں منایا گیا۔
آج کل کے جدید دور میں جانوروں کے اس عالمی دن کو منانے کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے اور ہر سال یہ دن 4 اکتوبر کو منایاجاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے جانوروں کی نایاب نسل کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ناپید ہونے سے بچانا، اور انسان اور جانوروں کے مابین انسیت کے جذبے جو اجاگر کرنا ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بے شمار افراد ایسے ہیں جو جانوروں کو پالنے کا شوق رکھتے ہیں اور ان جانوروں میں،بلیاں، کتے، خرگوش، بھیڑ بکرے، گھوڑے شیر کے بچے مختلف اقسام کے پرندے، مرغے مرغیاں، طوطے وغیرہ شامل ہیں۔
پالتو جانور انسان کے گھر میں ایک فرد کی سی اہمیت رکھتے ہیں۔
جانوروں کو پالنے کے لئے صاحب حیثیت افراد مختلف قسم کے کیٹل فارم، پنجرے اور پیٹ ہاوس بنواتے ہیں جس میں ان جانوروں کو رکھا جاتا ہے۔
کراچی میں موجود محمد علی نامی شخص نے اپنے گھر میں بلی پالی ہوئی ہے جس کا نام انھوں نے ’مانو‘ رکھا ہوا ہے۔
مانو اُن کے لئے ایک گھر کے فرد کی طرح ہے اور ان کے ساتھ ہی رہتی ہے۔
’وی او اے‘ سے بات کرتے ہوئے، محمد علی کا کہنا تھا کہ: ’مجھے اور میرے گھر والوں کو بلیاں پسند ہیں۔ اس لئے میں نے ایک اعلیٰ نسل کی بلی خریدی اور اب یہ ہمارے گھر میں ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ ہمارے اور مانو کے درمیان ایک انسیت پیدا ہوگئی ہے۔ اگر گھر والے کہیں چلے جائیں اور مانو گھر میں اکیلی ہو تو ہم سب گھر والوں کو آوازیں نکال کر یاد کرتی اور اداس ہوجاتی ہے‘۔
پاکستان میں مختلف قسم کےجانوروں کی ریس بھی عام ہے جس میں گھوڑوں، گدھوں، کتوں اور بیلوں کی ریسیں منعقد کی جاتی ہیں جس میں جیتنےوالے جانور کا مالک انعام وصول کرتا ہے۔
حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ پنجاب کے شہر ملتان میں جو بیلوں کی ریس منعقد کی جاتی ہے اس میں حصہ لینے والے بیلوں کے مالک ریس جیتنے کے لئے اپنے بیلوں کی آنکھوں میں پسی ہوئی لال مرچیں ڈالتے ہیں، جس کی جلن اور تکلیف سے گھبرا کر بیل تیز سے تیز دوڑتا ہے اور ریس جیت لیتا ہے۔
مگر، اس مبینہ ظلم کے بعد اس بیل کی موت واقع ہوجاتی ہے یا اس کی آنکھوں کی روشنی ختم ہوجاتی ہے، جس کے بعد اس کو ذبح کرکے اسکا گوشت فروخت کردیا جاتا ہے۔
پاکستان میں جانوروں پر ظلم کئے جانے کے خلاف 1990ء میں ایک بل پاس کیا گیا تھا جس میں کسی شخص کا کسی جانور ہر ظلم کرنے پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا اور کم سے کم ایک ماہ قید کی سزا مقرر کی گئی تھی۔
بل پاس ہونے کے باوجود، جانوروں کا بے دردی سے استحصال کرنے والے اور ان پر ظلم ڈھانے والے افراد کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔
انسانوں کی جانوروں کے درمیان اس محبت کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے اور جانوروں کے تحفظ کے لئیے 1931ء کو دنیا کا پہلا جانوروں کا عالمی دن اٹلی میں منایا گیا۔
آج کل کے جدید دور میں جانوروں کے اس عالمی دن کو منانے کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے اور ہر سال یہ دن 4 اکتوبر کو منایاجاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے جانوروں کی نایاب نسل کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ناپید ہونے سے بچانا، اور انسان اور جانوروں کے مابین انسیت کے جذبے جو اجاگر کرنا ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بے شمار افراد ایسے ہیں جو جانوروں کو پالنے کا شوق رکھتے ہیں اور ان جانوروں میں،بلیاں، کتے، خرگوش، بھیڑ بکرے، گھوڑے شیر کے بچے مختلف اقسام کے پرندے، مرغے مرغیاں، طوطے وغیرہ شامل ہیں۔
پالتو جانور انسان کے گھر میں ایک فرد کی سی اہمیت رکھتے ہیں۔
جانوروں کو پالنے کے لئے صاحب حیثیت افراد مختلف قسم کے کیٹل فارم، پنجرے اور پیٹ ہاوس بنواتے ہیں جس میں ان جانوروں کو رکھا جاتا ہے۔
کراچی میں موجود محمد علی نامی شخص نے اپنے گھر میں بلی پالی ہوئی ہے جس کا نام انھوں نے ’مانو‘ رکھا ہوا ہے۔
مانو اُن کے لئے ایک گھر کے فرد کی طرح ہے اور ان کے ساتھ ہی رہتی ہے۔
’وی او اے‘ سے بات کرتے ہوئے، محمد علی کا کہنا تھا کہ: ’مجھے اور میرے گھر والوں کو بلیاں پسند ہیں۔ اس لئے میں نے ایک اعلیٰ نسل کی بلی خریدی اور اب یہ ہمارے گھر میں ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ ہمارے اور مانو کے درمیان ایک انسیت پیدا ہوگئی ہے۔ اگر گھر والے کہیں چلے جائیں اور مانو گھر میں اکیلی ہو تو ہم سب گھر والوں کو آوازیں نکال کر یاد کرتی اور اداس ہوجاتی ہے‘۔
پاکستان میں مختلف قسم کےجانوروں کی ریس بھی عام ہے جس میں گھوڑوں، گدھوں، کتوں اور بیلوں کی ریسیں منعقد کی جاتی ہیں جس میں جیتنےوالے جانور کا مالک انعام وصول کرتا ہے۔
حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ پنجاب کے شہر ملتان میں جو بیلوں کی ریس منعقد کی جاتی ہے اس میں حصہ لینے والے بیلوں کے مالک ریس جیتنے کے لئے اپنے بیلوں کی آنکھوں میں پسی ہوئی لال مرچیں ڈالتے ہیں، جس کی جلن اور تکلیف سے گھبرا کر بیل تیز سے تیز دوڑتا ہے اور ریس جیت لیتا ہے۔
مگر، اس مبینہ ظلم کے بعد اس بیل کی موت واقع ہوجاتی ہے یا اس کی آنکھوں کی روشنی ختم ہوجاتی ہے، جس کے بعد اس کو ذبح کرکے اسکا گوشت فروخت کردیا جاتا ہے۔
پاکستان میں جانوروں پر ظلم کئے جانے کے خلاف 1990ء میں ایک بل پاس کیا گیا تھا جس میں کسی شخص کا کسی جانور ہر ظلم کرنے پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا اور کم سے کم ایک ماہ قید کی سزا مقرر کی گئی تھی۔
بل پاس ہونے کے باوجود، جانوروں کا بے دردی سے استحصال کرنے والے اور ان پر ظلم ڈھانے والے افراد کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔