جب دیہات کے رہنےوالے لوگ گائے چوری کے مقدمے کیلئے عدالت کا رخ کرسکتے ہیں تو جنسی حراسیت کیلئے کیوں نہیں؟ کتاب کی مصنفہ فوزیہ سعید کی وی او اے سے گفتگو۔
کراچی —
کراچی: خواتین کے مسائل کیلئے کام کرنےوالی سماجی کارکن اور مصنفہ فوزیہ سعید 'ورکنگ وتھ شارک' کی شاندار شہرت کے بعد اس کتاب کو اردو زبان میں 'بھیڑ کی کھال' کے عنوان سے پیش کر دیا ہے۔
جس کا مقصد اسے عام پڑھنے والے افراد اور خواتین کیلئے پیش کرنا ہے جو انگریزی زبان سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے انگریزی زبان کی کتابیں نہیں پڑھ پاتے۔ جمعرات کے روز اس کتاب کی تقریب رونمائی کراچی کے آرٹس کونسل میں ہوئی۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ سے خصوصی گفتگو میں کتاب کی مصنفہ فوزیہ سعید کا کہنا ہے کہ، ’اردو میں اگر کتاب نہ ہو تو اس کتاب کا مقصد پورا انہیں ہوتا، اُردو زبان پاکستان میں پڑھنےوالوں کیلئے اہمیت رکھتی ہے جسکی ضرورت محسوس کرتے ہوئےمیں نے اسے اردو زبان میں پیش کیا ہے‘۔
مجھے خوشی ہے کہ انگریزی کے بعد اردو میں کتاب شائع ہونے کے بعد اب ہر طبقے ہر جگہ کام کرنے والی خواتین اس کتاب کو با آسانی پڑھ سکتی ہیں
۔
پاکستان میں خواتین کے حوالے سے جنسی طور پرحراساں کرنے کے خلاف بل کے بارے میں فوزیہ سعید کا کہنا ہے کہ، ’جب یہ قانون بن گیا تو اب ہر جگہ اسکا اطلاق ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو ایک اچھا اقدام ہے‘۔
فوزیہ دیہاتی خواتین کے مسائل کے حوالے سے کہتی ہیں کہ، ’دیہات کے رہنے والے لوگ گائے چوری کے مقدمے کیلئے عدالت کا رُخ کرسکتے ہیں تو جنسی طور پر حراساں کیے جانے کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟‘
فوزیہ کے بقول کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ، ’جنسی زیادتی اور حراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اضافہ نہیں ہو رہا پہلے اس طرح کے کیسز رپورٹ نہیں ہوتے تھے مگر اب یہ کیسز رہورٹ ہوتے ہیں تو سامنے بھی آتے ہیں'۔
کتاب کی تقریب رونمائی سے گفتگو میں فوزیہ سعید کا مزید کہنا ہے کہ، ’جب ہم نے جنسی طور پر حراساں کیے جانے کیخلاف آواز بلند کی تو ایک کے بعد آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں اس جنگ میں ہمیں کئی مسائل کا بھی سامنا رہا تب کہیں جاکر ایک نتیجہ ’جنسی طور پر حراساں کیے جانے کیخلاف بل‘ کی صورت میں سامنے آیا ہے جسکے بعد اس قسم کے کئی کیسز رپورٹ کیے جا رہے ہیں‘۔
صحافیوں سے خصوصی بات چیت میں تقریب کی مہمان خصوصی اور پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان کا کہنا تھا کہ، ’فوزیہ سعید کی کتاب نہ صرف ان کی ذاتی رائے اور جدوجہد ہے بلکہ یہ خواتین کیلئے ایک پیغام کی حیثیت رکھتی ہے‘۔
تقریب سے خطاب میں پاکستانی ڈراموں کی مشہور اداکارہ عتیقہ اوڈھو کو کہنا تھا کہ، ’اگر ایک خاتون زیادتی کے باعث چپ رہے تو یہ اس بڑی زیادتی ہے، وہ کہتی ہیں کہ پاکستانی شوبز میں اس وقت 50 فیصد حصہ خواتین کا ہے جو اس انڈسٹری کا حصہ ہیں اگر ایک مرد غلط کام کرتا ہے تو معاشرے میں ایک دھبہ لگ جاتا ہے‘۔
بھیڑ کی کھال میں، کچھ کتاب کے بارے میں
اس کتاب میں مصنفہ فوزیہ سعید نے اپنی ذاتی زندگی کے ایسے واقعات تحریر کئے ہیں جن کا انہیں عملی زندگی میں سامنا رہا اور ایسے مرد رفقائےکار کے خلاف جدوجہد کرنی پڑیں جو خواتین کو پیشہ ورانہ عزت دینے سے قاصر تھے۔ آخرکار جب مصنفہ نے'کام کرنے والی جگہ پر جنسی طور پر حراساں کے جانے' کیخلاف آواز بلند کی تو انہوں نے دیکھا کہ وہ اس مسئلے میں اکیلی نہیں ہیں۔ 1997 میں جنسی طور پر حراساں کیے جانے کی تاریخی شکایت درج کی گئی اور اس مقدمے نے پاکستان میں سال 2001 میں ایک قومی تحریک نے جنم دیا جسکے نتیجے میں پاکستانی پارلیمینٹ میں سال 2010 میں 'جنسی استحصال' ایک باقاعدہ 'جرم' قرار دے دیا گیا۔
جس کا مقصد اسے عام پڑھنے والے افراد اور خواتین کیلئے پیش کرنا ہے جو انگریزی زبان سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے انگریزی زبان کی کتابیں نہیں پڑھ پاتے۔ جمعرات کے روز اس کتاب کی تقریب رونمائی کراچی کے آرٹس کونسل میں ہوئی۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ سے خصوصی گفتگو میں کتاب کی مصنفہ فوزیہ سعید کا کہنا ہے کہ، ’اردو میں اگر کتاب نہ ہو تو اس کتاب کا مقصد پورا انہیں ہوتا، اُردو زبان پاکستان میں پڑھنےوالوں کیلئے اہمیت رکھتی ہے جسکی ضرورت محسوس کرتے ہوئےمیں نے اسے اردو زبان میں پیش کیا ہے‘۔
مجھے خوشی ہے کہ انگریزی کے بعد اردو میں کتاب شائع ہونے کے بعد اب ہر طبقے ہر جگہ کام کرنے والی خواتین اس کتاب کو با آسانی پڑھ سکتی ہیں
پاکستان میں خواتین کے حوالے سے جنسی طور پرحراساں کرنے کے خلاف بل کے بارے میں فوزیہ سعید کا کہنا ہے کہ، ’جب یہ قانون بن گیا تو اب ہر جگہ اسکا اطلاق ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو ایک اچھا اقدام ہے‘۔
فوزیہ دیہاتی خواتین کے مسائل کے حوالے سے کہتی ہیں کہ، ’دیہات کے رہنے والے لوگ گائے چوری کے مقدمے کیلئے عدالت کا رُخ کرسکتے ہیں تو جنسی طور پر حراساں کیے جانے کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟‘
فوزیہ کے بقول کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ، ’جنسی زیادتی اور حراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اضافہ نہیں ہو رہا پہلے اس طرح کے کیسز رپورٹ نہیں ہوتے تھے مگر اب یہ کیسز رہورٹ ہوتے ہیں تو سامنے بھی آتے ہیں'۔
کتاب کی تقریب رونمائی سے گفتگو میں فوزیہ سعید کا مزید کہنا ہے کہ، ’جب ہم نے جنسی طور پر حراساں کیے جانے کیخلاف آواز بلند کی تو ایک کے بعد آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں اس جنگ میں ہمیں کئی مسائل کا بھی سامنا رہا تب کہیں جاکر ایک نتیجہ ’جنسی طور پر حراساں کیے جانے کیخلاف بل‘ کی صورت میں سامنے آیا ہے جسکے بعد اس قسم کے کئی کیسز رپورٹ کیے جا رہے ہیں‘۔
صحافیوں سے خصوصی بات چیت میں تقریب کی مہمان خصوصی اور پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان کا کہنا تھا کہ، ’فوزیہ سعید کی کتاب نہ صرف ان کی ذاتی رائے اور جدوجہد ہے بلکہ یہ خواتین کیلئے ایک پیغام کی حیثیت رکھتی ہے‘۔
تقریب سے خطاب میں پاکستانی ڈراموں کی مشہور اداکارہ عتیقہ اوڈھو کو کہنا تھا کہ، ’اگر ایک خاتون زیادتی کے باعث چپ رہے تو یہ اس بڑی زیادتی ہے، وہ کہتی ہیں کہ پاکستانی شوبز میں اس وقت 50 فیصد حصہ خواتین کا ہے جو اس انڈسٹری کا حصہ ہیں اگر ایک مرد غلط کام کرتا ہے تو معاشرے میں ایک دھبہ لگ جاتا ہے‘۔
بھیڑ کی کھال میں، کچھ کتاب کے بارے میں
اس کتاب میں مصنفہ فوزیہ سعید نے اپنی ذاتی زندگی کے ایسے واقعات تحریر کئے ہیں جن کا انہیں عملی زندگی میں سامنا رہا اور ایسے مرد رفقائےکار کے خلاف جدوجہد کرنی پڑیں جو خواتین کو پیشہ ورانہ عزت دینے سے قاصر تھے۔ آخرکار جب مصنفہ نے'کام کرنے والی جگہ پر جنسی طور پر حراساں کے جانے' کیخلاف آواز بلند کی تو انہوں نے دیکھا کہ وہ اس مسئلے میں اکیلی نہیں ہیں۔ 1997 میں جنسی طور پر حراساں کیے جانے کی تاریخی شکایت درج کی گئی اور اس مقدمے نے پاکستان میں سال 2001 میں ایک قومی تحریک نے جنم دیا جسکے نتیجے میں پاکستانی پارلیمینٹ میں سال 2010 میں 'جنسی استحصال' ایک باقاعدہ 'جرم' قرار دے دیا گیا۔