سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی دنیا میں ابھرتی ہوئی مختلف النسل مائیں

کیشا گلی. 3 ستمبر 2021ء (فائل فوٹو)

امریکہ میں بچوں کی نشونما اور تربیت سے متعلق معلومات فراہم کرنے والی صنعت کی مالیت کئی ارب ڈالرز بن چکی ہے۔ چاہے بلاگز اور ویب سائٹس ہوں یا فیس بک سپورٹ گروپس، جریدے ہوں یا کتابیں، سبھی اس میں شامل ہیں۔

اب سے کچھ عرصہ قبل تک ان پر سفید فام بچوں اور ماؤں کے چہرے ہی دیکھے جا سکتے تھے۔ مختلف برانڈز کی نظر بھی اپنے اشتہارات کے لئے صرف سفید رنگت والی انفلوئنسر ماؤں پر ہی آکر ٹھہرتی تھی۔

ایک طویل عرصے سے نظر انداز ہونے والی مختلف النسل ماؤں نے پھر اپنے معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اپنی نمائندگی خود کرنے کی ٹھانی۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں اب ایسے کئی پیرنٹنگ بلاگز اور گروپس سامنے آئے ہیں جنہیں مختلف رنگت رکھنے والی خواتین کامیابی سے چلا رہی ہیں۔

کیشا گلی بھی ایسی ہی اک ماں ہیں جنہیں آٹزم کے شکار بچوں کے ایک فیس بک سپورٹ گروپ سے ایسی گفتگو کےخلاف آواز اٹھانے پر نکال دیا گیا تھا جسے کیشا نسل پرستانہ قرار دیتی ہیں۔ پہلی بارماں بننے کے بعد کیشا نے یہ خاص طور محسوس کیا کہ سپورٹ گروپس میں صرف سفید فام نقطہ نظر ہی کو جگہ دی جاتی تھی۔

یہ سب دیکھتے ہوئے کیشا گلی نےخود اپنے تربیتی بلاگ کی بنیاد رکھی اور آج وہ اس کے علاوہ کئی سوشل میڈیا گروپس نہ صرف کامیابی سےچلا رہی ہیں بلکہ ان سے کما بھی رہی ہیں۔

کیشا کے بقول،ان بلاگز اور سوشل میڈیا سپورٹ پلیٹ فارمز سے آنے والی آمدنی اس تنخواہ سے کہیں زیادہ ہے جو وہ بطور فلائیٹ اٹینڈنٹ حاصل کرتی تھیں۔

خبر رساں ادارے، اے پی سے بات کرتے ہوئے کیشا نے بتایا کہ جب وہ پہلی بار ماں بنیں تو ان کے سامنے ایسے چھوٹے چھوٹے بہت سے سوالات تھے جن پر موجودہ سپورٹ گروپس میں کوئی بات ہی نہیں ہوتی تھی۔ جیسا کہ وہ اپنے نوزائیدہ بچے کے موٹے گھنگھریالے بالوں میں کس طرح اسے تکلیف دئیے بغیر کنگھی کرسکتی ہیں؟ یا سورج کی تیز شعاعوں کے نقصانات سے بچنے کے لئے ایسا کونسا سن سکرین ہے جو گہری رنگت والی جلد پر لگانے کے باوجود سفیدی نہیں چھوڑتا؟ کیشا کو یہ یقین تھا کہ وہ واحد ماں نہیں ہیں جن کے ذہن میں یہ سوالات ہیں اور ان کے جوابات کہیں اور نہ پا کر انہوں نے خود اپنی جیسی ماؤں کے لئے مشورے لینے اور دینے کی جگہ بنانے کی ٹھانی۔

پیشے کے اعتبار سے وکیل سیاہ فام نسل سے ہی تعلق رکھنے والی اسٹیسی فرگوسن نے بارہ سال قبل بلاگلیشیس کے نام سے ادارے کی بنیاد ڈالی جو گزشتہ سالوں میں سیاہ فام خواتین کو اپنے بلاگز بطور کاروبار چلانے کی تربیت دیتا رہا۔

پھر آنے والے سالوں میں بہت سے ایسے بلاگز اور انسٹاگرام اکاؤنٹس سامنے آئے جہاں موقع کی مناسبت سے کھینچی گئی خوبصورت تصاویر کیساتھ مائیں اپنی ہی کسی دوسری ماؤں کو نہ صرف بچوں کی تربیت کے حوالے سے مشورے دیتی نظر آئیں بلکہ ایسی مختلف اشیاء کے بارے میں بھی بتاتی نظر آئیں جو ان کے نزدیک دوسری ماؤں کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی تھیں۔ یہ اشیاء عام طور پر انفلوینسرز کو مختلف برانڈز کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں تاکہ ان کی فروخت بڑھانے میں مدد ملے۔

فرگوسن کے مطابق ایک زمانہ تھا جب ایسی تمام پوسٹس پر سفید فام چہرے ہی نظر آتے تھے مگر اب یہ منظرنامہ تبدیل ہوچکا ہے۔ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والی با اختیار ماؤں کا سوشل میڈیا پر بڑھتا ہوا اثر و رسوخ دیکھتے ہوئے مختلف برانڈز کا رویہ بھی تبدیل ہوا ہے اور اب دانستہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ مختلف اشیاء کی تشہیر کے لئے الگ الگ نسلوں سے تعلق رکھنے والی ماؤں اور بچوں کو نمائندگی دی جائے تاکہ ان مارکیٹس میں داخل ہوا جاسکے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز انسٹاگرام اور فیس بک کا جائزہ لیں تو دیکھا جا سکتا ہے کہ اب صرف سیاہ فام اور لاطینی ہی نہیں پاکستان اور انڈیا سے تعلق رکھنے والی بہت سی مائیں بھی جنہیں امریکہ میں عام طور پر "دیسی مامز" یا "براؤن مامز" کہا جاتا ہے بہت سے ایسے سپورٹ گروپس اور اکاؤنٹس چلاتی ہیں جہاں ان کے ہی جیسی دوسری مائیں اپنے ثقافتی اور سماجی رویوں کے مطابق ایک دوسرے کو مشورے فراہم کرتی نظر آتی ہیں۔ ایسی برانڈز جو امریکہ میں رہنے والی جنوبی ایشیائی ماؤں کی مارکیٹ میں جگہ بنانے چاہتی ہیں "براؤن مامز" انفلوئنسرز کو اپنی پراڈکٹس کی تشہیر کے لئے استعمال کرتی ہیں۔

انفلوئنسر ماؤں کے ذریعے کمپنیاں اور برانڈز ہر سال کتنا بجٹ خرچ کرتی ہیں اس بارے میں حتمی اعدادوشمار تو کہیں شائع نہیں ہوئے مگر ماہرین کے مطابق اس مد میں سالانہ اربوں ڈالرز خرچ ہورہے ہیں۔

(اس خبر کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے)