زیادہ پرانی بات نہیں۔ بلوچوں نے اپنے لاپتا بیٹوں، بھائیوں، باپ اور شوہروں کی بازیابی کے لئے ملک بھر میں پیدل مارچ کیا۔ مرد، عورت، بوڑھے، بچے سب اس مارچ میں شامل تھے، جگہ جگہ پڑاؤ ڈالا۔ مہینوں تک در بدر رہے۔ لیکن مجال ہے کہ میڈیا نے کوئی چرچا کیا ہو، سرخیاں لگائی ہوں۔
آئے دن، مختلف شہروں میں، کبھی پریس کلب کے سامنے، سڑک پر، سرکاری دفاتر کے باہر، تھکے ہارے، دھول میں اٹے، ہاتھوں میں احتجاجی پوسٹر اٹھائے نظر آتے تھے۔ کبھی کبھار ان کی کوئی چھوٹی سی تصویر خالی جگہ پُر کرنے کے لئے لگا دی جاتی تھی مگر پھر وہی سناٹا۔
تو آخر آٹھ مارچ کو عورت مارچ میں کیا سرخاب کے پر لگے تھے کہ سوشل میڈیا تھکتا ہی نہیں اس کی بات کرتے۔ اور بات بھی نہ تو عورتوں کے حقوق کی، نہ ان کے عالمی دن کی، نہ ان کی صدیوں کی جدوجہد کی۔ بلکہ ان چنیدہ پوسٹرز کی جو اس مارچ میں سامنے آئے۔
ان پر قدامت پسند حلقوں اور بیشتر مرد حضرات کا اعتراض تو تھا ہی، پھر جواب در جواب کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ لیکن جب کشور ناہید جیسی معتبر شاعر اور عشروں سے عورتوں کے حقوق کی ایکٹیوسٹ نے کچھ پوسٹرز کی زبان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ’’اپنی تہذیب، روایات اور شعور کو مد نظر رکھیں‘‘۔ تو لگتا یوں ہے کہ مارچ کے حامی حلقے کشور ناہید کے رد عمل پر سچ مچ شاک میں ہیں۔ مگر مثبت بات یہ ہے کہ انتہائی احترام کے ساتھ، آخر آج کے بہت سے’اینگری ینگ مین‘ انہیں کشور آپا جو کہتے ہیں۔ بہرحال نقادوں کو بھی اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ عشروں پہلے سےعورتوں کے ایک غیر روایتی تصور کے لئے آواز اٹھانے والی خواتین میں ایک بہت جاندار آواز کشور ناہید کی ہے۔
’یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں جو اہلِ جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں
نہ جان بیچیں نہ سر جھکائیں
نہ ہاتھ جوڑیں
یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں کہ جن کے جسموں کی فصل بیچیں
جو لوگ
وہ سرفراز ٹھہریں
نیابتِ امتیاز ٹھہریں
وہ داورِ اہلِ ساز ٹھہریں
یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں کہ سچ کا پرچم اُٹھا کے نکلیں ۔۔۔‘
بات یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی گلیوں اور محلوں سے آنے والی اور اسی طرح انگریزی اسکولوں میں پڑھنے والی یہ عورتیں، یہ لڑکیاں، یہ بچیاں، ادبی زبان لکھنے کی اہل نہیں ہیں۔ ان ’احتجاجیوں‘ کو اپنے غصے کے اظہار کے لئے جو بھی لفظ سمجھ میں آئے وہ انہوں نے اپنے پرچم پر لکھ دئے۔ جیسا کہ مارچ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ کسی سیاسی پارٹی کی مارچ تو تھی نہیں کہ پوسٹر بنوا کر تقسیم کئے جاتے۔ ’’ ایک کھلی مارچ میں حصہ لینے والے جب صدیوں سے گھٹے، دبے غصے کا اظہار کرتے ہیں تو ان کے لفظوں کو سنسر کرنا نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی ممکن‘‘۔
جب ان پوسٹرز پر اتنی لے دے ہوئی تھی تو ہم نے بھی سوچا کہ کیوں نہ کچھ خواتین کو راؤنڈ ٹیبل میں جمع کر کے ان سے بات کی جائے، رابطے شروع کیے تو ایک خوشگوار حیرت اس پر ہوئی کہ ناقدین اور حامی دونوں ہی واٹس ایپ پر جڑے ہوئے تھے اور ہر قسم کے لنکس کا دھڑا دھڑ تبادلہ کیا جا رہا تھا۔ ٹی وی اینکر نادیہ مرزا اور جویریہ صدیق کاخیال تھا کہ ان پوسٹرز نے مارچ کے اصل مقصد کو ہائی جیک کر لیا۔
جویریہ کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی مارچ یا تحریک شروع کی جائے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس کے بنیادی مقاصد پر کام کرتے ہوئے، انہی کو ہائی لائٹ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان تصویروں نے اس مقصد کو نقصان پہنچایا ہے۔
’’اس طرح کے پوسٹرز جن پر نازیبا الفاظ یا ذومعنی جملے لکھے ہوں، ہمارے مذہب اور معاشرے سے میل نہیں کھاتے‘‘۔
نگہت داد، مارچ کے منتظمین میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’کسی بھی مارچ کو پابند نہیں کیا جا سکتا۔ مارچ ایک اوپن کال ہوتی ہے اور لوگ مختلف بیک گراؤنڈز سے آتے ہیں۔ آپ نہ تو مارچ کو پولیس کر سکتے ہیں نہ مانیٹر کر سکتے ہیں اور نہ ہی مارچ کو پولیس یا سنسر کرنا چاہیے‘‘۔
تو کیا یہ سچ ہے اصل ’کاز‘ کو نقصان پہنچا؟
نگہت کہتی ہیں ’’ذرا نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ایک ایسی بحث نے جنم لیا ہے جو اس سے قبل کبھی میڈیا کا حصہ نہیں تھی اور اب اجتماعی طور پر حصہ بنی ہے‘‘۔
نگہت کے خیال میں اصل نقصان میڈیا نے پہنچایا ہےاور ٹی وی شوز نے چند پوسٹرز کو سامنے رکھ کر فیصلے صادر کئے ہیں۔ لیکن، نادیہ مرزا جنہوں نے اس بارے میں ٹی وی شو بھی کیا تھا، کہا ہے کہ ان پوسٹرز کی وجہ سے ایک پوری بحث اس بارے میں شروع ہوگئی ہے کہ ’’خواتین کس قسم کی آزادی چاہتی ہیں۔ خواتین کی مارچ کے ’مینی فیسٹو‘ سے تو کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ مارچ کا مقصد حقیقی تھا اور میں اس کو سپورٹ کرتی ہوں۔
لیکن، ہر سوسائٹی کے کچھ رولز ہیں۔۔۔ مؤقف کو بیان کرنے کے لیے ان گالیوں کا سہارا لیا گیا جو ہم عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتے‘‘۔ نادیہ نے یہ بھی کہا کہ جب انہوں نے یہ پروگرام کیا تو ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے محض ریٹنگ کے لئے ایسا کیا ہے۔
خواتین کس قسم کی آزادی چاہتی ہیں۔ اور کس سے؟
عافیہ سلام سوشل میڈیا پر خود بھی ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ ان کے خیال میں یہ جو سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کس سے چاہئے آزادی۔ تو ضروری نہیں ہے کہ آزادی ’کسی‘ سے چاہئے ہو۔ آزادی چاہئے سڑک پر چلنے کی، آواز اٹھانے کی۔ کیا عورتوں کو اس طرح مل کر کسی بات پر کھڑے ہونے کی، پبلک اسپیس میں جانے کی آزادی ہے؟ اس اعتراض پر کہ معاشرے کی حدود میں رہ کر بات کرنی چاہئے۔ عافیہ سلام کہتی ہیں کہ ’انہی حدود نے تو پابند کیا ہوا ہے۔ انہی حدود سے تو آزادی چاہئے۔ آپ کا یہی معاشرہ تو خواتین کو ان کے حقوق نہیں دے رہا‘‘۔
بینا سرور، انسانی، بالخصوص خواتین کے حقوق کی ایکٹیوسٹ ہی نہیں بلکہ جرنلزم کی استاد بھی ہیں۔ وہ اس بارے میں نادیہ اور جویریہ سے اتفاق کرتی ہیں کہ مارچ، ان پلے کارڈز اور سلوگنز کی وجہ سے ایک طریقے سے ہائی جیک ہوگئی۔
’’اس کہ ذمہ داری نہ تو منتظمیں پر ہے اور نہ ہی ایک حد تک سوشل میڈیا پر ۔ بلکہ ایک حد تکperception management ہو ہی نہیں پایا‘‘۔
’’میں اس میں ذمہ دار ٹھہراؤں گی ان صحافیوں کو جنہوں نے اپنا کام نہیں کیا، بلکہ محض سوشل میڈیا پوسٹس کی بنیاد پر پروگرام کئے۔ صحافیوں کا فرض پوری تصویر کو دیکھنا اور ایک میں دیکھنا ہے۔ تصدیق کے بغیر بات کا بتنگڑ بنانا نہیں ‘‘۔
’یہ فیصلہ کون کرے گا کہ اصل مقصد کیا تھا‘؟
یہ سوال کیا ایوارڈ یافتہ صحافی اور حقوق کی سرگرم کارکن صبا اعتزاز نے۔ جو ایک عرصے سے خواتین کے مسائل پر کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں آپ کو ایک ایک نعرے، ایک ایک پوسٹر کی کیس اسٹڈی بتا سکتی ہوں۔ ’کھانا خود گرم کرلو‘ کو لے کر اتنا بڑا تنازعہ شروع ہو گیا، جس زاویے کو سوشل میڈیا پر دکھایا گیا اور جو زیادہ تر بیانیہ تھا وہ مرد حضرات کی طرف سے تھا کہ یہ تو ایلیٹ خواتین کے مسئلے تھے ۔۔۔ یہ پوسٹر وہاں اس لئے تھے کہ یہ معاشرے کے عکاس تھے۔ کہیں باہر سے نہیں آئے تھے۔
ان میں مختلف اقتصادی طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے ذاتی تجربات کا اظہار کر رہی تھیں۔ آپ پوسٹرز کی ’بےہودگی‘ کے بجائے اگر یہ سوچیں کہ اس طرح کی بےہودگی یہ خواتین ہر روز برداشت کرتی ہیں۔ تو اس بےہودگی کو ختم کرنے پر کیوں نہیں فوکس کیا جاتا؟‘‘
تو کیا عشروں سے جاری یہ جدوجہد یا کم از کم اس پر بحث کسی حتمی نتیجے تک پہونچے گی؟ یہ فیصلہ آپ کریں۔
’یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں
کہ اب تعاقب میں رات بھی آئے تو یہ آنکھیں نہیں بجھیں گی
کہ اب جو دیوار گر چکی ہے اسے اُٹھانے کی ضد نہ کرنا
یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں
جو اہلِ جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں نہ جان بیچیں نہ سر جھکائیں نہ ہاتھ جوڑیں‘۔