امریکی خواتین کا ہال آف فیم

National Women's Hall of Fame

جب ہم ہال آف فیم میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں ہمیں خواتین کے حقوق کی علمبردار سوزن ایتھونی کا پلیٹ فارم دکھائی دیتا ہے ۔ وہ 1872 میں ایک ایسے وقت میں جب خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا ، اپنا ووٹ ڈالنے پر ایک سو ڈالر کے جرمانے کے الزام میں عدالت میں پیش ہوئی تھیں ۔

امریکی خواتین نے ووٹنگ کے حق سے لے کر 2016 میں ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار تک کے لیے اپنی جدو جہد کے سفر میں بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وہ تاریخ نیو یارک کے علاقے سینکا فالز میں قائم نیشنل ویمنز ہال میں پیش کی جارہی ہے۔

نیو یارک کے علاقے سنیکا فالز میں سن 1969 میں یہ میوزیم ان امریکی عورتوں کی خدمات کو سامنے لانے کے لیے ایک تعمیر کیا گیا تھا جنہوں نے معاشرے کی فلاح کے لیے نمایاں کا م سرانجام دیے ہیں۔

خواتین کے ہال آف فیم کی تعمیر کا ایک اہم مقصد آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ان کی خدمات اور تاریخ کو محٖفوظ کرنا تھا۔

میوزیم کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی شریک صدر کہتی ہیں کہ ہا ل آف فیم میں شمولیت کے لیے ہر امیدوار کو درخواست دینی ہوتی ہے اور پھر ایک طویل کارروائی کے بعد اس کا نام ہال آف فیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

نیشنل ہال آف فیم کی شریک صدر ایلین ہارٹمین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے اس میوزیم میں ہر دوسرے سال نمایاں کار ہائے انجام دینے والی خواتین کا اضافہ کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ خواتین کا ہال آف فیم ان خواتین کو خراج پیش کرتا ہے جنہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے جدو جہد کی ہو۔ ایلین ہارٹمین کہتی ہیں کہ ہم اسے ایک ایسی جگہ سمجھتے ہیں جہاں سے خواتین کے حقوق کی جدو جہد کا آغاز ہوا۔

جب ہم ہال آف فیم میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں ہمیں خواتین کے حقوق کی علمبردار سوزن ایتھونی کا پلیٹ فارم دکھائی دیتا ہے ۔ وہ 1872 میں ایک ایسے وقت میں جب خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا ، اپنا ووٹ ڈالنے پر ایک سو ڈالر کے جرمانے کے الزام میں عدالت میں پیش ہوئی تھیں۔

اسی طرح ایک پلیٹ فارم ایلین کو لینز کا ہے ۔ وہ پہلی خاتون تھیں جو 1995 میں آٹھ روزہ خلائی مشن میں خلائی شٹل کی پائلٹ تھیں۔

ہال آف فیم کی خواتین میں پہلی خاتون صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن بھی ان خواتین میں شامل ہیں ۔ اسی طرح فلکی طبیعیات کی ماہر ڈاکٹرجوڈیٹھ پیفر بھی جو ان پہلے لوگوں میں شامل تھیں جنہوں چاند کی ٹیلی اسکوپک انفراریڈ تصاویر بنائیں تھیں۔

پفر کہتی ہیں کہ خواتین نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن انہیں ابھی بہت دور تک جانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ خواتین اور مردوں میں جو ایک جیسے عہدوں پر کام کر تے ہیں۔ تنخواہوں میں عدم مساوات موجود ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ خواتین کو کبھی کبھی کم تر سطحوں پر ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے ، کمپنیوں میں سربراہوں، سی ای اوز یا صدور کے طور پر بہت سی خواتین کا حصہ بہت کم ہے۔

خواتین کی اجاگر کی جانے والی کامیابیاں اتنی زیادہ ہیں کہ ہال آف فیم کی دیواریں ان سے بھر چکی ہیں اور اب میوزیم ایک نئی اور زیادہ بڑی جگہ کے لیے فنڈز اکٹھے کر رہا ہے۔