خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی اطلاعات کی تحقیقات کا مطالبہ

فائل

الیکشن کمیشن نے ماضی میں ایسے واقعات سامنے آنے کے بعد ان نشستوں پر انتخابات کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخاب کا حکم دیا تھا جہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا تھا۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا میں ہونے والے ضمنی بلدیاتی انتخاب میں خواتین کو حقِ رائے دہی استعمال کرنے سے مبینہ طور پر روکے جانے کی اطلاعات پرخواتین کے حقوق سے متعلق قومی ادارے 'نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن' نے پاکستان الیکشن کمیشن سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

کمیشن کی چیئرپرسن خاور ممتاز نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات کو دیر بالا کی داروڑا یونین کونسل میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ بعض سیاسی جماعتوں کی مقامی قیادت نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ خواتین کو پولنگ کے عمل سے دور رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایسی اطلاعات بھی انہیں موصول ہوئی ہیں کہ شاید اس انتخاب میں ایک بھی خاتون نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "الیکشن کمیشن سے میری بات ہوئی ہے۔ انہوں نے فوراً کہا ہے کہ ہم اس کی تحقیقات کرا رہے ہیں اور اگر یہ بات ثابت ہوتی ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔۔۔۔ نئے قانون کے تحت ایک اصول طے ہو گیا ہے کہ ووٹ ڈالنے کے عمل میں کم ازکم 10 فی صد خواتین کی شرکت ضروری ہے۔ "

انہوں نے کہا کہ نئے قانون کی روشنی میں الیکشن کمیشن کے لیے یہ معاملہ ایک امتحان بن گیا ہے اور ہمار مطالبہ ہے کہ اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس الیکشن میں خواتین کو ووٹنگ کے عمل سے دور رکھا گیا تو اس انتخاب کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخاب کرائیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ انہوں نے کسی خاتون کو بھی ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا لیکن خاور ممتاز کے بقول اگر ایسا ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اطلاعات کے مطابق کسی بھی خاتون نےاپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا؟

انہوں نے کہا کہ یہ سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کی سیاسی و انتخابی عمل میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کریں۔

انہوں نے کہا، "سب سے زیادہ ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی ہے۔ یہ کہنا کہ عورتوں کا ووٹ ڈالنے کا دل نہیں چاہتا یہ کسی طور قبول نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے ووٹروں کو قائل کرتی ہیں اور الیکشن کمیشن سے کہتی ہیں کہ ان (خواتین) کے پولنگ بوتھ الگ ہوں، یہ سب کچھ وہ ہی کرتی ہیں اور اس لیے یہ سیاسی جماعتوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ جو قانون انہوں نے بنایا ہے اس پر عمل کرانا بھی ضروری ہے۔"

خاور ممتاز نے خواتین قانون سازوں پر بھی زور دیا کہ اس معاملے کو پارلیمان اور اپنی اپنی جماعتوں کے اندر اٹھائیں اور خواتین کو سیاسی عمل میں شرکت سے روکنے کے اقدامات کی مذمت کریں۔

آئین کے تحت پاکستانی خواتین سیاسی عمل میں بطور ووٹر اور امیدوار حصہ لینے کا حق رکھتی ہیں تاہم ملک کے بعض علاقوں میں اب بھی بعض حلقوں کی طرف سے خواتین کو اس عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور الیکشن کمیشن نے ماضی میں ایسے واقعات سامنے آنے کے بعد ایسے انتخابات کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخاب کا حکم دیا تھا جہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔