’’محرم کے بغیر عمرہ؟ بہت مشکل ہو جائے گا۔ یہ عبادت اتنی بھی آسان نہیں قدم قدم پر مرد کی ضرورت لازمی طور پر رہتی ہے۔‘‘
’’سعودی عرب سخت قوانین والا ملک ہے جہاں خواتین پر خاصی پابندیاں ہیں، تو پاکستان سے جانے والی اکیلی خواتین کو وہاں کا معاشرہ کس نظر سے دیکھے گا؟‘‘ یہ وہ خدشہ تھا جو میری والدہ نے ظاہر کیا جو اِدھر اُدھر سے اس ملک کے بارے میں سن کر ایک رائے بنا چکی تھی۔
یہ وہ جملے تھے جو میں نے با رہا سنے تھے، جب میں نے کسی کو بھی بتایا کہ میں عمرے پر اپنی دوست کے ہمراہ جا رہی ہوں۔ ایک جانب لوگوں نے دعاؤں کی درخواست کی اور مبارک باد بھی ملتی تھی۔ تو دوسری جانب اس فکر مندی کا اظہار بھی کیا جاتا تھا کہ مرد کے بغیر جانا کافی مشکل کا سبب بن سکتا ہے۔
کسی بھی مسلمان کے لیے حج اور عمرے جیسی عبادت کی ادائیگی دیرینہ خواہش ہوتی ہے۔ میں بھی کئی برس سے اس خواہش کو پورا کرنے کی چاہ دل میں لیے بیٹھی تھی۔ لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی رکاوٹ یا پھر محرم کے ساتھ جانے کی پابندی مجھے اپنا ارادہ تبدیل کرنے پر مجبور کردیتی۔
رواں برس حج کے موقع پر اس خبر نے مجھے یہ حوصلہ دیا جس کے مطابق بھارت سے چار ہزار سے زائد خواتین نے بغیر محرم کے حج ادا کیا۔ یہاں تک کہ ایئر انڈیا ایکسپریس کی فلائٹ کیرالہ سے 145 خواتین کو لے کر سعودی عرب روانہ ہوئی جو بھارت کی تاریخ کا حصہ بن گئی۔
اسی روز میں نے پختہ ارادہ کرلیا تھا کہ مجھے اب اس سفر کی ہمت کرنی ہوگی۔
میں نے ایک روز اپنی دوست کو رات گئے پیغام بھیجا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں عمرے کے لیے جانا چاہتی ہوں۔ کیا وہ بھی میرے ساتھ یہ سفر کرنا چاہے گی؟ جس پر مجھے جواب آیا کہ کیوں نہیں۔
لیکن یہ سفر آسان اس لیے نہیں تھا کیوں کہ میں اور میری دوست شیما دونوں ہی ایک ایسی تکلیف سے گزر رہے تھے جس کے لیے ہمیں ڈاکٹر کی جانب سے مکمل آرام کا مشورہ تھا۔
شیما ایک حادثے میں کمر میں فریکچر کے سبب طویل بیڈ ریسٹ سے گزری تھی اور میں رپورٹنگ کے دوران بیک انجری کا شکار ہوئی تھی جس میں مجھے ڈاکٹر کی جانب سے چھ ہفتوں کے مکمل بیڈ ریسٹ، ادویات کے باقاعدہ استعمال اور فزیو تھراپی کا مشورہ ملا ہوا تھا۔
ایسے میں دو ایسی خواتین کا اس حالت میں سفر کرنا واقعی مشکل فیصلہ تھا لیکن میرا یہ ارادہ تھا کہ یہی وقت ہے کہ اس سفر کی ہمت کرلی جائے۔
بہت سی خواتین کے لیے یہ فیصلہ کرنا ہی مشکل ہوگا کہ وہ اکیلے یہ سفر کیسے کریں گی اور اگر اس کا ارادہ وہ باندھ بھی لیں تو انہیں سفر کے دوران یا اس سے قبل کیا ممکنہ مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس کے لیے کچھ اہم باتوں کا جاننا ضروری ہے جس کا تجربہ مجھے بھی ہوا۔
سفر سے پہلے کیا انتظامات کرنے ہیں؟
ویسے تو اب ویزا حاصل کرنے کی سہولت آن لائن دستیاب ہے لیکن صرف ویزا حاصل کرنا ہی کافی نہیں ہے۔
عمرے کے دوران آپ کا قیام کہاں ہوگا؟ وہ ہوٹل مکہ میں مسجد الحرام اور اور مدینہ میں مسجدِ نبوی سے کتنا قریب ہوگا۔ وہاں آپ کو کیا سہولیات میسر ہوں گی۔
ویسے تو ہوٹل کی بکنگ آن لائن ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم نے اپنے سفر کو آسان بنانے کےلئے ایک ٹریول ایجنٹ کی سہولت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، جس نے ہمارے بجٹ کو مدِنظر رکھتے ہوئے ویزا، ٹکٹ، ہوٹل اور جدہ سے مکہ اور مکہ سے مدینہ جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا۔
ٹریول ایجنٹ کے ذریعے انتظامات کا خرچہ تین لاکھ روپے فی کس تھا۔ اگر اس میں سے پرائیوٹ کار کی سہولت نکال دی جاتی تو یہ بجٹ دو لاکھ ستر ہزار کا ہوجاتا۔
ویزے کے حصول کے لیے کوئی لمبی چوڑی کاغذی کارروائی نہیں تھی۔ صرف دو تصاویر، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی مانگی گئی تھی۔
اسی دوران میری دوست کی دو بہنوں نے بھی جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور یوں اب یہ چار خواتین کا گروپ بن گیا تھا۔ ہم نے ہوٹل میں ایسا کمرہ بک کرایا جہاں چار بیڈ کی سہولت تھی۔ جب بھی آپ سفر کا ارادہ کریں تو ٹکٹ ایک سے دو ماہ قبل بک کرائیں اس سے بھی آپ کے بجٹ پر اثر پڑے گا۔
اپنے ساتھ سامان کیا لے کر جانا ہے؟
میں اس سے قبل بھی کچھ ممالک کا سفر کر چکی تھی جس کے باعث ایئر پورٹس پر طویل انتظار، بھاری بھرکم سوٹ کیس کے ساتھ دوڑ، امیگریشن کی قطاریں اور کنکٹنگ فلائٹس کا کچھ تجربہ مجھے تھا ۔
مختلف ایئر لائنز سامان کا وزن مقرر کرتی ہیں۔ سعودی ایئر لائن ہر مسافر کو ایک بڑا سوٹ کیس، جس کا وزن 23 کلو اور ایک چھوٹا بیگ جس کا وزن سات کلو ہو، اس کی اجازت دیتی ہے۔
یہ سفر عبادت کے لیے ہے تو سامان کا مختصر ہونا آپ کے سفر کو اور بھی آسان بنا سکتا ہے۔
خواتین کو چوں کہ احرام کے طور پر عبایا اور اسکارف پہننا ہوتا ہے تو اس کے لیے دو سے تین عبایا اور کچھ اسکارف لے جائیں۔ ہر دن کے لیے ایک سوٹ رکھنا آپ کے سامان کو وزنی ہی کرے گا۔ اس لیے تین سے چار جوڑے کپڑے موزوں ہیں۔
پیدل چلنے کے لیے آرام دہ جوتے اور چپل کے دو جوڑے کافی ہیں۔ اپنے پاس جرابیں ضرور رکھیں۔ یہ طواف اور سعی کے دوران پہننے سے آپ کے لیے آرام دہ رہیں گی۔ اسی سامان میں آپ ایک چھوٹا سا کراس باڈی بیگ بھی لے کر رکھیں جو عمرے کی ادائیگی کے دوران پانی کی بوتل، موبائل فون، ضروری ادویات اور پیسے رکھنے کے کام آسکتا ہے۔
ویسے تو مکہ اور مدینہ میں پاکستانی، بھارتی ہوٹلوں کی کمی نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ باہر کا کھانا نہیں کھانا چاہتے تو اپنے ساتھ گھر کا بنا کھانا ٹن پیک میں لے جاسکتے ہیں ۔ شیمپو، صابن، ڈٹرجنٹ لے جانے سے اجتناب کریں کیوں کہ یہ سب وہاں با آسانی بازار میں دستیاب ہوتا ہے۔
اپنے استعمال کی ضروری ادویات اپنے سفر کے حسا ب سے لازمی ساتھ رکھیں اور ڈاکٹر کا نسخہ بھی ساتھ رکھیں۔
وہاں خرچ کرنے کے لیے آپ ضرورت کے حساب سے ریال لے کر جائیں تاکہ بوقت ضرورت آپ کے پاس رقم موجود ہو۔
سامان کو پیک کرتے وقت وہ اشیا جن کی ضرورت ایئر پورٹ پر پڑ سکتی ہے، جیسے پاسپورٹ، اس کی فوٹو کاپیز، پیسے، شناختی دستاویزات یا ادویات، یہ سب ہینڈ بیگ یا پرس میں رکھیں۔
سفر کرنے سے قبل سوٹ کیس کا وزن کرلیں اور یہ اندازہ رکھیں کہ اگر آپ واپسی پر تحائف یا کھجوریں وغیرہ لانا چاہتے ہیں تو آپ کے سامان کا وزن زیادہ نہ ہو۔
امیگریشن کا مرحلہ
ہر مسافر کے لیے یہ مرحلہ تھوڑا صبر آزما ہوتا ہے کیوں کہ امیگریشن کاؤنٹرز پر لمبی قطاریں موجود ہوتی ہیں۔
بین الاقوامی پروازوں کے لیے ٹیک آف سے ڈھائی یا تین گھنٹہ قبل جانے کی اہم وجہ ان مراحل سے با آسانی نکلنا ہوتا ہے جو خواتین اکیلے سفر کر رہی ہوں، ان کے لیے ایئر پورٹس پر علیحدہ کاؤنٹرز ہوتے ہیں۔
سعودی عرب میں زبان نہ جاننے کے مسائل کی وجہ سے بہت سی خواتین پریشان ہو جاتی ہیں لیکن امیگریشن افسران نہ صرف آپ کی زبان سے واقف ہوتا ہے بلکہ وہ آپ کے فنگر پرنٹس لینے اور انٹری کے لیے آپ کو پورا وقت دیتے ہیں۔
اس لیے ایسے موقع پر پُرسکون رہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور جدہ ایئر پورٹ پر ہم خواتین نے اپنی باری آنے پر امیگریشن کا مرحلہ پانچ منٹ میں مکمل کرلیا تھا ۔
سعودی عرب پہنچنے پر سامان کا حصول اور رابطے کا طریقہ
جب تک آپ امیگریشن کے مراحل اور اسکیننگ کے عمل سے گزر کر فارغ ہوتے ہیں تو آپ کا سامان بیلٹ پر آچکا ہوتا ہے۔
سعودی عرب میں ایئر پورٹ پر سامان کے حصول کے بعد باہر نکلتے ہی مختلف فون کمپنیوں کے کاؤنٹرز آپ کو نظر آئیں گے جہاں سے آپ مہینے یا دو ہفتے کے لیے سعودی عرب کے کسی موبائل فون نیٹ ورک کی سِم لے سکتے ہیں جس میں انٹر نیٹ سروس دستیاب ہو گی۔
اس موبائل سِم کو وہیں فون میں ایکٹو کرائیں اور وہیں چیک کرلیں تاکہ اگر وہ سم کسی وجہ سے کام نہ کر رہی ہو تو وہ مسئلہ اسی وقت حل ہو جائے۔
انٹر نیٹ آن ہوتے ہی آپ اپنی خیریت سے گھر والوں کو مطلع کر سکتے ہیں ۔
ہم نے چوں کہ اپنے پیکج میں جدہ سے مکہ جانے کے لیے پرائیوٹ کار پہلے سے بک کرا رکھی تھی اس لیے ہم نے اپنے ڈرائیور سے رابطہ ہوتے ہی سامان گاڑی میں رکھا اور مکہ روانہ ہوگئے۔
لیکن اگر آپ نے یہ سہولت حاصل نہیں کی تو ایئر پورٹ سے آپ کو فری بس سروس میسر ہوگی جو زائرین کی سہولت کے لیے ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ٹیکسی کے ذریعے بھی مکہ جایا جا سکتا ہے۔ اس سہولت سے آگاہ کرنے لیے بھی عملہ ایئر پورٹ پر موجود رہتا ہے۔
عمرے کی ادائیگی کے لیے حرم کا سفر
ویسے تو زائرین عام طور عمرے کی نیت پاکستان سے کر کے جاتے ہیں جس کے بعد احرام کی پابندیاں شروع ہو جاتی ہیں لیکن جہاز میں بھی یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس وقت پرواز میقات کے مقام سے گزر رہی ہے تو جو لوگ عمرے کی نیت کرنا چاہتے ہیں وہ کرلیں۔
بہت سی خواتین جدہ ایئر پورٹ سے بھی احرام پہننے اور نیت کرکے مکہ کا سفر کرتی ہیں۔
عام طور پر لوگ پہلا عمرہ اسی روز ادا کرتے ہیں جس روز آپ مکہ پہنچتے ہیں۔
لیکن اگر کوئی خاتون کسی بھی وجہ سے پہلے روز عمرہ ادا نہیں کرسکتیں تو وہ اگلے روز مسجد عائشہ جاکر میقات کرسکتی ہیں۔
ہم نے پہلے ہی روز ہوٹل پہنچتے ہی اپنا سامان کمرے میں رکھا اور پھر حرم کی جانب چل دیے۔
ہوٹل حرم سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا اور ہوٹل نے 24 گھنٹے شٹل سروس کی سہولت دے رکھی تھی اور اسی سہولت کے باعث ہم نے اس جگہ قیام کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ شٹل حرم سے 300 میٹر دور ہمیں ڈراپ کرتی تھی۔
حرم جانے سے قبل ہم نے صرف ضرورت کے حساب سے چالیس پچاس ریال، پانی کی بوتل، موبائل فون اپنے کراس باڈی بیگ میں رکھے اور چل دیے۔
حرم کے بیرونی صحن میں ہم چاروں خواتین نے ایک جگہ طے کی کہ اگر عمرے کے دوران کسی بھی وجہ سے کوئی الگ ہو جائے تو وہ عمرے کے بعد ہمارا وہاں آدھے گھنٹے انتظار کرے اور اگر آدھے گھنٹے میں وہاں کوئی نہ آئے تو وہ ہوٹل روانہ ہو جائے۔
ہم نے اپنا سعودی عرب کا فون نمبر ایک دوسرے سے شیئر کیا اور ایک واٹس ایپ گروپ بھی بنایا جس میں ہوٹل کی پن لوکیشن، روم نمبر، ویزا کی تصویر بھی شئیر کیں تاکہ سب کو آسانی رہے یہ بھی طے کیا کہ جو پہلے ہوٹل پہنچے گا وہ اس گروپ میں میسیج کر دے گا تاکہ ہم باخبر رہیں کہ کون کہاں ہے اور کتنی دیر میں پہنچے گا۔
اس عمل کے بعد ہم چاروں خواتین کبھی ساتھ تو کبھی اکیلے ہی حرم چلے جاتے تھے۔
پہلا عمرہ کیسا تھا؟
جو لوگ پہلے یہ عبادت کرچکے ہیں وہ اس سے واقف ہیں لیکن جو خواتین پہلی بار بنا محرم کے خانہ کعبہ میں داخل ہو رہی ہوں انہیں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی قسم کی رہنمائی، مطاف میں جانے کا راستہ یا مشکل کے لیے جگہ جگہ موجود انتظامیہ کی خواتین اور مرد مدد کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
صرف یہی نہیں یہاں صفائی اور دیگر امور کی انجام دہی کے لیے پاکستانی، بھارتی، بنگالی شہری بھی ہوتے ہیں جو آپ کی رہنمائی کرتے ہیں۔
میں جب مطاف میں پہنچی تو یہ شام چھ بجے کا وقت تھا۔ کعبہ کے ارد گرد جس جگہ طواف کیا جاتا ہے اسے مطاف کہتے ہیں۔ اس وقت مطاف میں معمول سے کہیں زیادہ رش بڑھنے لگتا ہے۔
عمرے کا آغاز ہوچکا تھا۔ طواف سے سعی کا مرحلہ لگ بھگ دو گھنٹے میں مکمل ہو تھا۔
اس وقت حرم میں رش عروج پر تھا ۔ عمرے کی ادائیگی تو ساڑھے آٹھ بجے مکمل ہوئی لیکن حرم میں بیٹھے رہنے کے بعد رات 11بجے ہم نے ہوٹل جانے کا فیصلہ کیا۔
سعودی عرب میں تنہا خاتون کے ساتھ برتاؤ
جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا وہاں 90 فی صد زائرین کاہی قیام تھا۔
ہوٹل کے استقبالیہ پر لوگ اپنے مسائل، بکنگ کے معاملات کے لیے ہر وقت موجود رہتے تھے۔
رات کو جب ہم کمرے میں داخل ہوئے تو احساس ہوا کہ ہم چار خواتین کے حساب سے یہ کمرہ چھوٹا ہے کیوں کہ ہمارے پاس سامان بھی چار افراد کے حساب سے تھا۔ہم نے یہ ارادہ کیا کہ کمرہ تبدیل کرایا جائے۔
جب میں نے اپنی درخواست ہوٹل انتظامیہ کو پیش کی تو انہوں نے یہ تفصیل جانتے ہی کہ ہم چار خواتین بنا محرم کے اس ہوٹل میں ٹھہری ہوئی ہیں یہ کام 10 منٹ میں کر دیا اور سارا سامان دوسری بلڈنگ کی ایسی فلور پر منتقل کرایا جہاں بڑے کمرے تھے۔
ہمیں جس بھی چیز کی ضرورت ہوتی وہ ہمیں کم وقت میں کمرے میں پہنچا دی جاتی۔
دوسرے دن ہمیں ایک اور عمرے کی نیت سے مسجدِ عائشہ جانا تھا جس کے لیے ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ کیسے جایا جاسکتا ہے۔
بہت سے لوگوں نے یہ بتایا تھا کہ حرم سے میقات کے لیے بسیں چلتی ہیں ۔ میقات وہ مقام ہے جہاں سے عمرے کی نیت کی جاتی ہے۔ یہ مقام مکہ کی حدود سے باہر ہے۔
ہم نے اپنی الجھن ناشتے کی ٹیبل پر ڈسکس کی کہ ایک بنگالی ویٹر نے ہمیں بات کرتے دیکھ کر پوچھا کہ آپ پاکستانی ہیں؟ ہم نے ہاں میں جواب دیا۔
ہم نے اس ویٹر کو اپنا مسئلہ بیان کیا تو اس نے تفصیل سے بتایا کہ میقات کے لیے فری بس سروس موجود ہے لیکن وہ بس شہر کا چکر لگاتے ہوئے آنے جانے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگا سکتی ہے۔ اس لیے ہمیں اجرا (ٹیکسی) میں مسجدِ عائشہ جانا چاہیے۔
یہاں تک کہ اس نے ہمیں کرایہ بھی بتایا کہ آپ چاروں خواتین آنے جانے کا 30 یا 40 ریال سے زیادہ ادا نہیں کیجئے گا۔
ہم نے ناشتے کے بعد ہوٹل سے باہر ٹیکسی لی۔ یہ ایک برمی ڈرائیور تھا جس نے چالیس ریال کا کرایہ طے کیا اور ہمیں مسجد عائشہ لے گیا جہاں اس نے نوافل کی ادائیگی کا انتظار کیا۔ ٹیکسی سے اترتے وقت میں نے اسے بیس ریال دینے چاہے تو اس نے منع کیا اور کہا کہ آپ پریشان نہ ہو واپس پہنچ کر ادا کیجئے گا۔
پانچ روز مکہ میں رہتے ہوئے ہمیں تین بار ٹیکسی سے مسجد عائشہ جانا ہوا جس میں برمی، سوڈانی اور پاکستانی ڈرائیور ملے۔
ان ڈرائیورز نے نہ صرف ہمیں راستوں کے بارے میں آگاہی دی بلکہ شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور طارق محمود نے ہمیں اسی کرائے میں سفر کے دوران بہت سی جگہوں کے بارے میں نہ صرف بتایا بلکہ ایک دو جگہ روک کر زیارات بھی کرائیں۔
ہم عموماََ عمرہ کرنے کا وقت صبح 11 سے 12 بجے کا رکھتے تھے۔ یہ وہ وقت ہوتا تھا جب 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی کے سبب مطاف میں بہت کم زائرین طواف کر رہے ہوتے تھے۔
کمر پر سپورٹنگ بیلٹ لگا دیکھ کر بہت سے زائرین نہ صرف ہمارا خیال کرتے تھے بلکہ کئی بارسعی کے دوران درد کے سبب رک جانے کے باعث جب میں اور شیما بیٹھ جاتے۔ تو کئی خواتین ہمیں زم زم کا گلاس بھی بھر کر دیتیں یا کچھ کھانے پینے کی چیز بھی پیش کرتیں ۔
کئی مواقع پر زائرین نے یہ دیکھ کر کہ میں فرش پر بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر نماز کی ادائیگی سے قاصر ہوں کرسی بھی فراہم کی یا پھر اٹھنے میں مدد بھی کی۔
میں نے یہ بھی دیکھا کہ زبان کا فرق اپنی جگہ لیکن لوگ دوسرے کی تکلیف کا احساس کرتے دکھائی دیتے ہیں ان کی مدد کرنے کے لیے آگے بڑھتے۔
یہ احساس لفظوں کے محتاج نہ تھے بلکہ ایک مسکراہٹ، تھپکی یا بزرگوں کی جانب سے ملنے والی شفقت کی صورت میں دکھائی دیتی تھی۔
ان پانچ روز میں بھری دوپہر ہو یا پھر رات میں رش کے وقت کا طواف، مجھے ایک بار بھی دھکم پیل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
یہی نہیں اس سفر کے دوران ہمارے ان دوستوں اور عزیزوں کو جنہیں ہماری آمد کا علم ہوا۔ وہ جدہ سے مکہ آئے اور اپنے ساتھ گھر کا بنا کھانا، پھل اور ضرورت کی بہت سی اشیاء لائے۔
مکہ سے مدینہ روانگی
مکہ سے مدینے کا سفر اب بذریعہ ٹرین اور بھی آسان ہو چکا ہے لیکن ہم نے گاڑی سے جانے کی بکنگ پاکستان سے کر لی تھی یہ سفر لگ بھگ چار سے ساڑھے چار گھنٹے کا ہے۔
جمعے کی نماز پڑھنے کے بعد ہم نے دو بجے مدینے کا سفر شروع کیا اور شام کو چھ بجے اپنے مقررہ ہوٹل پہنچ چکے تھے جو مسجد نبوی سے 300 میٹر کے فاصلے پر تھا۔
پہلے ہی سے ہوٹل کی بکنگ ہونے کے سبب ہمیں انتظار کی زحمت نہیں کرنی پڑی اور ہم اپنے کمرے میں پہنچ گئے۔
نماز مغرب ہم نے مسجد نبوی میں ادا کی یہاں بھی ہمارا پانچ روز کا قیام تھا۔
یہاں پر مسجد نبوی کے اردگرد بڑی تعداد میں ہوٹل ہیں اور ان سے متصل بازار بھی ہیں۔
ہمیں بہت سے لوگوں نے بتایا تھا کہ اگر اپنے عزیزوں کے لیے تحائف اور کھجوریں لینی ہوں تو مدینہ منورہ اس کے لیے بہتر ہے کیوں کہ یہاں دکانیں بے شمار ہیں اور بھاؤ تاؤ باآسانی ہو جاتا ہے۔
یہاں بھی آپ کو پاکستانی ریستوران قریب میں مل جاتے ہیں جو صبح سے رات گئے کھلے رہتے ہیں۔
نسک ایپلی کیشن کا استعمال
سعودی حکومت نے کرونا کی وبا کے بعد پیغمبرِ اسلام کے روضے پر جانے اور ریاض الجنہ میں نوافل کی ادائیگی کے اوقات مقرر کیے ہیں ۔
حضرات تو دن میں کسی بھی وقت سلام پیش کرنے جا سکتے ہیں لیکن خواتین کے لیے اوقات مقرر ہیں اور انہیں یہ وقت ایک موبائل ایپلی کشن نسک کے ذریعے ملتا ہے جو انہیں کوئی دن اور اس میں موجود آدھے گھنٹے کا سلاٹ مل پاتا ہے۔
یہ مقررہ وقت اس تاریخ اور وقت تک ایکٹو رہتا ہے اسی کو دکھا کر آپ قطار سے گزر کر اندر داخل ہوتے ہیں۔
اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مقررہ وقت میں وہیں خواتین داخل ہو سکتی ہیں جن کے پاس پرمٹ موجود ہے۔
جن خواتین کے پاس پر مٹ نہ ہو انہیں داخل ہونے نہیں دیا جاتا۔
اس لیے بہتر یہ ہے کہ جب آپ کا ٹکٹ بک ہو جائے تو آپ اپنے فون میں اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کریں اور اس میں اپنا ویزا نمبر، پاسپورٹ نمبر فیڈ کریں اور جس روز آپ نے مدینہ پہنچنا ہے ان تاریخوں میں پیشگی اپنے لیے سلاٹ لے لیں تاکہ آپ کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
رش کے سبب اکثر خواتین کو مقررہ تاریخوں میں پرمٹ نہیں ملتا جس کے سبب وہ پریشان ہوجاتی ہیں۔
اسی ایپ کی مدد سے آپ مدینہ سے مکہ یا جدہ ٹرین کی آن لائن بکنگ بھی کرا سکتے ہیں۔
رواں ماہ سعودی وزیر برائے عمرہ و حج ڈاکٹر توفیق الربیعہ نے اعلان کیا ہے کہ نسک ایپ اب 24 گھنٹے کے اندر پاکستانی عمرہ زائرین کو ویزا جاری کرنے میں مدد دے گی اور یہ ویزا اب ایک ماہ کے بجائے نوے روز کا ہوگا تاکہ زائرین عمرے کے ساتھ ساتھ تاریخی مقامات کا بھی سفر کرسکیں ۔
زیارتوں اور دیگر مقامات کی سیر
بہت سے عمرے پیکج یا عمرہ گروپس کی جانب سے زیارتیں کرائی جاتی ہیں لیکن اگر کوئی خاتون اکیلے یا دیگر خواتین کے ساتھ جا رہی ہوں تو وہ ہوٹل کی انتظامیہ سے بھی اس سہولت کا پوچھ سکتی ہیں ۔
بہت سے ٹیکسی ڈرائیورز 150 ریال میں آپ کو مکہ میں زیارتیں کرا دیتے ہیں جس میں کم و بیش تین سے چار گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔
خواتین جب چاہیں مکہ یا مدینہ میں اپنے ہوٹل سے نکل کر حرم جاسکتی ہیں۔ ان کے لیے یہ ایک محفوظ ملک ہے اور جب کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ آپ تنہا یا صرف خواتین اس سفر پر آئی ہیں تو لوگ نہ صرف آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں بلکہ آپ کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں ۔