ٹی وی پروگرام میں 'نازیبا زبان کے استعمال' کا معاملہ پھر موضوع بحث

پیمرا نے اپنے نوٹس میں ایسے پروگرام نشر کرنے کو ایک غیر ذمہ دارانہ اقدام قرار دیا جو جان بوجھ کر ادارے کے بقول پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے کیا گیا

رواں ہفتے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے ایک پروگرام کے متنازع حصے پر ملک میں مختلف سماجی حلقوں اور انٹرنیٹ پر ایک بحث جاری ہے۔

نجی ٹی وی چینل "نیوز ون" کے ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران اس میں شریک خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن ماروی سرمد اور پاکستان کی ایک سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سینیٹر حافظ حمداللہ کے درمیان تلخ اور نازیبا جملوں کا تبادلہ ہوا۔

بعدازاں ماروی سرمد نے اپنے فیس بک پیچ پر ایک بیان میں حافظ حمداللہ پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران ان کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی اور انہیں سخت نتائج کی دھمکیاں بھی دی۔ اس کے بعد سماجی میڈیا پر ایک بحث کا آغاز ہو گیا۔

اس معاملے کی نا صرف سماجی و سیاسی حلقوں نے مذمت کی بلکہ اس طرح کےپروگرام نشر کرنےپر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔

گزشتہ روز ماروی سرمد نے اسلام آباد کے ایک پولیس اسٹیشین پر حافظ حمداللہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست جمع کروائی جس میں انھوں نے الزام عائد کیا کہ قانون ساز نے انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔

تاحال حافظ حمداللہ کی طرف سے اس بارے میں کسی قسم کاردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

دوسری طرف پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے "پیمرا" نے نیوز ون چینل کو یہ پروگرم نشر کرنے کے معاملے کی وضاحت کرنے کے لیے نوٹس جاری کیا ہے۔

پیمرا نے اپنے نوٹس میں ایسے پروگرام نشر کرنے کو ایک غیر ذمہ دارانہ اقدام قرار دیا جو جان بوجھ کر ادارے کے بقول پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے کیا گیا اور یہ صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔

پاکستان کے ایک سینیئر صحافی اور معروف تجزیہ کار ضیاالدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کے واقعات کی وجہ پروگرام کی میزبانوں کی مناسب تربیت کا فقدان اور چینلز کی انتظامیہ کی طرف سے کسی قدر غیرذمہ داری کا مظاہرہ بھی ہے۔

پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں نجی ٹی وی چینل کام کررہے اور ان کی نشریات کا ایک بڑا حصہ ٹاک شوز پر مشتمل ہوتا ہے تاہم اکثر ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جس میں شریک مہمان بعض اوقات غیر اخلاقی اور نا مناسب زبان کا استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تاہم مبصریں کا ماننا ہے کہ ایسے پروگرام پیش کرنے والوں کی تربیت اور صحافتی اصولوں سے آگاہی سے ایسے واقعات کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔