اعتماد کے ووٹ کے بعد کیا پرویز الہٰی اب اسمبلی تحلیل کر دیں گے؟

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی سیاسی صورتِ حال ایک بار پھر فیصلہ کن موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ پرویز الہٰی کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اب سب نظریں وزیرِ اعلٰی پنجاب پر ہیں کہ وہ کب پنجاب اسمبلی تحلیل کرتے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ اعتماد کا ووٹ پی ٹی آئی کی اخلاقی فتح ہے جس کے بعد اسمبلی تحلیل کرنے کے راستے میں اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اعتماد کے ووٹ کے بعد پنجاب کی سیاست میں جو غیر یقینی صورت حال تھی وہ تو کسی حد تک ختم ہو گئی ہے، لیکن اب اگلا مرحلہ اسمبلی کی تحلیل کا ہے جس کا اعلان عمران خان نومبر میں کر چکے ہیں۔

'عمران خان نے اصرار کیا تو اسمبلی تو تحلیل کرنی ہی پڑے گی'

سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی نے بہرحال صوبے میں اپنا مینڈیٹ ثابت کر دیا ہے۔لہذٰا اب اگر عمران خان اُنہیں اسمبلی تحلیل کرنے کا کہیں گے تو اُنہیں لامحالہ ایسا کرنا ہی پڑے گا۔

تجزیہ کار افتحار احمد کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ووٹوں کی وجہ سے ہی وزیرِ اعلٰی ہیں۔ لیکن اگر عمران خان اُنہیں اسمبلی تحلیل کرنے کا کہتے ہیں تو وہ اس حوالے سے کوئی عذر پیش کر کے مزید مہلت پر زور دے سکتے ہیں۔

اُن کے بقول پرویز الہٰی یہ چاہیں گے کہ اسمبلی کی تحلیل میں مزید وقت مل جائے تاکہ وہ ترقیاتی منصوبے مکمل کرا کر اگلے انتخابات کے لیے اپنی سیاسی پوزیشن مزید مستحکم کر سکیں۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اگر عمران خان پرویز الہٰٰی پر زور دیتے ہیں کہ وہ ہر حال میں اسمبلی توڑیں تو پھر اُن کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہو گا، کیوں کہ وہ اپنی سیاست کا مستقبل پی ٹی آئی کے ساتھ ہی دیکھتے ہیں۔

افتحار احمد کہتے ہیں کہ پنجاب کی سیاست میں جو کچھ بھی کل رات اور آج ہوا وہ قانون کے دائرے میں اور آئین کے تابع ہوا ہے۔

اُن کے بقول یہ آئین کی بالادستی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر پنجاب نے اپنا نوٹی فکیشن واپس لے لیا ہے جس سے ایک مسئلے کا حل نکل آیا ہے۔

افتحار احمد کہتے ہیں کہ پرویز الہٰی کے اعتماد کا ووٹ لینے کے دوران مسلم لیگ (ن) کی تیاری مکمل نہیں تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ آزاد رُکن اسمبلی بلال وڑائچ نے اس سارے عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کیا اور 186 اراکین پورے ہوئے۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اگر پنجاب اسمبلی تحلیل ہو گئی تو صرف پنجاب میں ہی انتخابات ہوں گے جب کہ باقی ملک میں وقت پر الیکشن ہوں گے۔


مسلم لیگ (ن) کے پاس کیا آپشنز بچے ہیں؟

تجزیہ کار افتخار احمد کی رائے میں اِس وقت مسلم لیگ (ن) کے پاس زیادہ آپشنز نہیں بچے۔ اُنہیں پارلیمانی جمہوریت کا احترام کرتے ہوئے دوسری جماعت کی برتری کو تسلیم کرنا چاہیے۔

مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ اعتماد کے ووٹ سے پہلے مسلم لیگ (ن) نے جو دعوے کیے تھے، وہ غلط ثابت ہوئے۔

اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) کو لگتا تھا کہ پرویز الہٰی سے ناراض اراکین اُن کا ساتھ نہیں دیں گے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔