ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ کے بڑھتے خدشات نے خطّے کی سیاست میں جہاں ہلچل پیدا کر دی ہے، وہیں مشرق وسطٰی، جنوبی ایشیا اور خلیجی ممالک کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچنے کے امکانات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔
ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی سے پاکستان کس طرح متاثر ہوسکتا ہے اور پاکستان کو کیا معاشی چیلنجز درپیش ہو سکتے ہیں؟ وائس آف امریکہ نے اس معاملے پر مختلف ماہرین سے بات کی ہے جس کے مندرجات پیش ہیں۔
تیل کی قیمتوں میں اضافہ
ایران سے جنگ کی صورت میں سب سے پہلے دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کے بعض اشارے ملنے بھی لگے ہیں۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 68.6 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر چھ جنوری کو 68.91 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی تھیں۔ لیکن سات جنوری کو قیمتوں میں معمولی کمی بھی دیکھی گئی۔
لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تناؤ بڑھتا ہے تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور پاکستان کے لیے قرضوں کی ادائیگی کے بعد سب سے بڑا بل تیل کی درآمد کا ہی ہوتا ہے۔
پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ اور معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پاکستان کی معیشت کو سب سے بڑا خطرہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایک بیرل پر 10 ڈالر تک اضافہ ہو تو ہماری معیشت کو تیل کے درآمدی بل میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے لگ بھگ کا اضافی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری معاشی حالت ایسی نہیں کہ یہ جھٹکا برداشت کر سکے۔ حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ اگر تیل کی قمیت 100 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی تو پھر ہمارے لیے یہ جھٹکا برداشت کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
ان کے بقول ایران اور امریکہ کے درمیان کسی بھی جنگ کی صورت میں پاکستان سمیت دنیا بھر کی معیشتوں کو تیل کی سپلائی میں تعطل بھی آسکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تیل کی قیمتیں بڑھتے ہی ملک میں مہنگائی کا ایک اور طوفان آ سکتا ہے جو بقول ان کے پہلے ہی بے قابو ہو رہی ہے۔
ترسیلات زر میں کمی
پاکستان کی معیشت کا اہم دار و مدار بیرون ملک کام کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم پر بھی ہے۔ ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی کے مطابق پاکستان کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 46 فی صد ترسیلات موصول ہوتی ہیں اور امریکہ اور برطانیہ کی ترسیلات زر بھی ملائی جائیں تو یہ کل ترسیلات کا 76 فی صد تک بنتی ہیں۔
شاہد حسن صدیقی کے مطابق کمزور معیشت کی وجہ سے ہمارا انحصار ان ترسیلات پر بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا جنگ کی صورت میں ہمیں ان ترسیلات میں کمی یا محرومی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جس میں خود انحصاری پر زیادہ تکیہ ہو۔
شاہد حسن صدیقی کے مطابق جنگ کی صورت میں پاکستان کے لیے تیل اور ترسیلاتِ زر کی وصولی کے ساتھ تجارتی راہداری میں تعطل یا بندش کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاری میں کمی کے بھی واضح امکانات ہیں۔
'پاکستان کا نقصان یورپی ممالک سے کم ہوگا'
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال جنگ کے امکانات کافی معدوم ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کی کیفیت کم ہو گی۔
سیاسی معاشیات کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی کے مطابق جنگ کی صورت میں پاکستان کا نقصان کا اتنا نہیں ہو گا جس قدر یورپی یونین یا دیگر مغربی ممالک کا ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول جنگ کی صورت میں تیل کی سپلائی بند یا متاثر ہونے سے قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ہما بقائی نے کہا کہ ایران اور امریکہ دونوں ہی جنگ کا پھیلاؤ نہیں چاہتے۔ ان کے بقول قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران کو اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ اقدامات کرنے تھے جو امریکی فوجی اڈوں پر حملے کی صورت میں نظر آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مزید حملے نہیں کریں گے۔ امریکہ میں بھی اپوزیشن یہ بات تواتر سے کہہ رہی ہے کہ ہمیں جنگ کی جانب نہیں جانا چاہیے۔
ہما بقائی کے بقول امریکہ کو عراق میں عوامی حمایت حاصل نہیں ہے بلکہ وہاں ایران کی حمایت میں عوامی جذبات پائے جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایسے ملک میں بیٹھ کر کسی دوسرے ملک سے لڑائی لڑنا مشکل امر ہے۔
ہما بقائی کا مزید کہنا تھا کہ ایسی صورتِ حال پیدا ہوتی نظر نہیں آ رہی جو تصادم مزید بڑھائے۔ ان کے بقول جنگ سے ایران یا امریکہ سمیت کسی کو کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔