وِکی لیکز کی دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ امریکی حکومت کے تسلیم شدہ اعدادو شمار کے مقابلے میں کہیں زیادہ عراقی شہری جنگ میں ہلاک ہوئے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق، اِن میں سے بڑی اکثریت کئی برس پہلے کے فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے۔
اخبار ‘نیویارک ٹائمز’ اُن چار صحافتی اداروں میں سے ایک ہےجنھیں کئی ہفتے قبل اِن دستاویزات تک رسائی دی گئی تھی۔
اخبار کا کہنا ہے کہ اِن میں اُن واقعات کی تفصیل بھی شامل ہے جِن کا ذکر اِس سے پہلے نہیں کیا گیا تھا اور اِن میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں غیر ارادی طور پر چیک پوائنٹس پر عام شہریوں کی ہلاکت اور ہیلی کاپٹروں کے حملوں کے واقعات شامل ہیں۔
اخبار ‘نیو یارک ٹائمز’ کا کہنا ہے کہ شہری جانی نقصان کی مکمل تعداد بتانا مشکل ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے بعض ہلاکتیں ایک سے زیادہ دفعہ بیان کی گئی ہوں۔ تاہم، اُس کا کہنا ہے کہ دستاویزات میں ایک لاکھ سے زیادہ عراقی شہریوں کی ہلاکتوں کی تفصیل ہے۔
یہ دستاویزات چھوٹے یونٹوں کی اُن کے کمانڈروں کے لیے میدانِ جنگ کی خام رپورٹیں ہیں جو 2003ء کے اواخر اور اِس سال کے اوائل کا احاطہ کرتی ہیں۔
رپورٹوں میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ عراقی فوجی عراقی قیدیوں کو بڑے پیمانےپر ناروا سلوک کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
جہاں تک ایران سے شیعہ باغیوں کی حمایت کا تعلق ہے دستاویزات میں ایسے مخصوص واقعات بیان کیے گئے ہیں جِن میں قیدیوں نے ایران سے مدد حاصل کرنے کی بات کی ہے۔دستاویزات میں ایران سے مہیا کردہ اسلحہ اور گولہ بارود کی تفصیل بھی موجود ہے۔
دستاویزات میں یہ بھی درج ہے کہ عراقی باغیوں نے ایران میں نشانہ بازی اور دھماکہ خیز مادے کی ٹیکنالوجی کی تربیت حاصل کی۔
اِسی دوران، پینٹگان میں ایک خصوصی ٹیم اُن عراقی شہریوں کی حفاظت کے لیے کارروائی کرتی رہی ہے جِن کے نام دستاویزات میں شامل ہیں۔ 120رکنی ٹاسک فورس مھینوں سے خفیہ طریقے سے کام کرتی رہی ہے جِس میں اُس ڈیٹابیس کا جائزہ لینا بھی شامل ہے جِس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ وکی لیکز کے پاس بھی موجود ہے۔
مکمل آڈیو رپورٹ سنیئے:
پینٹگان نے دستاویزات کے شائع ہونے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی اور عراقی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں اور اِس اقدام سے فوجی کارروائی میں رکاوٹ ڈل سکتی ہے