وکی لیکس مقدمہ: ملزم فوجی کے کورٹ مارشل کا فیصلہ

فائل

میننگ پر الزام ہے کہ اُس نے وہ خفیہ سرکاری دستاویزات 'وکی لیکس' کے حوالے کیں جن تک اُسے بطورِ فوجی تجزیہ کار رسائی حاصل تھی۔ 'وکی لیکس' نے بعد ازاں ان دستاویزات کو جولائی 2010ء سے شائع کرنا شروع کردیا تھا

امریکہ کی ایک فوجی عدالت کے جج نے خفیہ سرکاری دستاویزات 'وکی لیکس' کو فراہم کرنے کے ملزم امریکی فوجی اہلکار کے خلاف عائد الزامات رد کرنے سے انکار کردیا ہے۔

فوجی عدالت کے جج کرنل ڈینس لِن نے امریکی فوج کے انٹیلی جنس تجزیہ کار بریڈلے میننگ کے خلاف عائد الزامات کے تحت کورٹ مارشل نہ کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے مقدمے کی کاروائی کے آغاز کے لیے 21 ستمبر کی تاریخ مقرر کردی ہے۔

قبل ازیں، منگل کو مقدمے کے آغاز سے قبل ہونے والی سماعت میں ملزم کے وکلا نے مقدمہ خارج کیے جانے کے حق میں دلائل دیے تھے۔ وکلا نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا تھا کہ استغاثہ وکلائے صفائی کو ملزم کے دفاع کے لیے درکار معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔

بریڈلے میننگ پر دشمن کی اعانت کرنے سمیت 22 مختلف الزامات عائد کیے گئے ہیں جن پر ملزم نے تاحال اپنا موقف نہیں دیا ہے۔

میننگ کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ ابتدائی طور پر اپنے موکل پر عائد "دشمن کی اعانت کرنے" کے الزام کا جواب داخل کرا رہے ہیں۔

وکیلِ صفائی ڈیوڈ کومبس نے جوابِ دعویٰ میں لکھا ہے کہ ان کے موکل کے آن لائن گفتگو کے ریکارڈ سے واضح ہے کہ اس کا امریکہ کے کسی دشمن کی مدد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

میننگ پر الزام ہے کہ اس نے وہ خفیہ سرکاری دستاویزات 'وکی لیکس' کے حوالے کیں جن تک اسے بطورِ فوجی تجزیہ کار رسائی حاصل تھی۔ 'وکی لیکس' نے بعد ازاں ان دستاویزات کو جولائی 2010ء سے شائع کرنا شروع کردیا تھا۔

اگر میننگ پر عائد الزامات درست ثابت ہوگئے تو اسے اپنی باقی پوری زندگی جیل میں گزارنا پڑسکتی ہے۔

میننگ کے خلاف مقدمہ چلائے جانے سے قبل معاملے کی ابتدائی سماعت امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے نواح میں واقع فوجی مرکز فورٹ میڈومیں ہورہی ہے جو امکان ہے کہ جمعرات کو بھی جاری رہے گی۔

اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں ہونے والی ابتدائی سماعت کے دوران میں استغاثہ کی جانب سے ماہرین نے بیانِ حلفی دیتے ہوئے بتایا تھا کہ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ ملزم نے خفیہ دستاویزات کو ڈائون لوڈ کرکے ڈسکس پہ محفوظ کیا تھا جنہیں بعد میں 'وکی لیکس' کو فراہم کیا گیا۔

سماعت کے دوران میننگ کے وکلاء نے اپنے موکل کو مشکل میں گھرا ایک ایسا شخص قرار دیا تھا جسے ان کے بقول نومبر 2009ء سے مئی 2010ء تک عراق میں اس کی تعیناتی کے دوران میں خفیہ سرکاری دستاویزات تک رسائی نہیں دی جانی چاہیئے تھی۔

وکلائے صفائی نے خفیہ معلومات کے حامل کمپیوٹرز کے حفاظتی انتظامات کو بھی ناقص قرار دیتے ہوئے کاروائی کے دوران بیانِ حلفی دینے والے گواہوں کے حوالے سے کہا تھا کہ فوجی ان کمپیوٹرز پر ویڈیو گیمز کھیلا کرتے تھے۔

'وکی لیکس' کی جانب سے میننگ کی فراہم کردہ سفارتی کیبلز اور دیگر خفیہ فوجی دستاویزات کے اجرا نے دنیا میں ایک ہنگامہ کھڑا کردیا تھا کیوں کہ ان میں کئی عالمی رہنماؤں کی نجی اور عوامی زندگیوں کے متعلق امریکی اہلکاروں کے تلخ تبصرے بھی موجود تھے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ 'وکی لیکس' کی جانب سے خفیہ دستاویزات کی اشاعت سے نہ صرف لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑیں بلکہ امریکہ کی قومی سلامتی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک کےساتھ اشتراکِ عمل کی امریکی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا۔