وکی لیک کے بانی کے خلاف امریکہ میں مقدمہ چلانے پر غور

)

امریکی حکومت اس امکان کا جائزہ لے رہی ہے کہ وکی لیک کے بانی جولین اسانج کو قانون کے کٹہرے میں کیسے لایا جائے اور اگر ایسا کیا گیا تو امریکی آئین میں دیئے گئے آزادی اظہارکے حق پر کہاں تک حرف آسکتا ہے ۔

دنیا بھر میں حکومتیں اور ذرائع ابلاغ وکی لیکس نام کی انٹر نیٹ ویب سائٹ کے ذریعے امریکی سفارتکاروں کے پیغامات کے سامنے آنے پر اپنے اپنے انداز سے رد عمل ظاہر کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف امریکی حکومت اس امکان کا جائزہ بھی لے رہی ہے کہ وکی لیک کے بانی جولین اسانج کو قانون کے کٹہرے میں کیسے لایا جائے اور اگر ایسا کیا گیا تو امریکی آئین میں دیئے گئے آزادی اظہارکے حق پر کہاں تک حرف آسکتا ہے ۔

منکشف کئے گئے ان رازوں میں نہ تو شمالی کوریا کے لئے پلوٹونیم بم بنانے کی ترکیب ہے اور نہ ہی القاعدہ کا تعاقب کرتے امریکی فوجی دستوں کی اگلی پیش قدمی کا سراغ ۔ امریکی فوج اور سفارتکاری کے موجودہ اور سابق حلقے یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان سفارتی پیغامات کے سامنے آنے سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا ، لیکن پھر بھی صدمے اور برہمی کااظہار جاری ہے ۔

واشنگٹن کے انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی سے منسلک ماہر پال برینین کہتے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے محفوظ ہونے سے متعلق ہم نے بار بار امریکی حکومت کے بیانات سنے ہیں ، جو اطمینان کی بات تھی مگر اب تشویش پاکستان اور اس کی فوج کےایٹمی مقامات کے تحفظ کے بارے میں سامنےآنے والی رپورٹوں پر ہے ۔ انکشافات میں جس انتہائی افزودہ یورینم کا ذکر ہے اور جو پر امن مقاصد کے لئے ریسرچ ری ایکٹر میں استعمال ہوتا ہے ۔وہ اسی مقام پر رکھا گیا ہے جو پاکستانی فوج کے ایٹمی پلوٹونیم رکھنے کی جگہ ہے ۔ یہ ایک نئی بات ہے ۔

امریکی فوج کےایک سابق سربراہ ہیو شیلٹن کہتے ہیں کہ خفیہ معلومات کے عام ہونے سے کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں ، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ ماضی میں ایسی ہی صورتحال نے امریکہ کے لئے اسامہ بن لادن کی گرفتاری مشکل بنا دی تھی۔ ہیو شیلٹن یمن کے صدر اور جنرل ڈیوڈ پیٹرئیس کے درمیان گفتگو کی تفصیلات عام ہونے کو مشرق وسطی میں امریکی فوجی اپریشنز کے لئے خطرناک قرار دیتے ہیں ۔

امریکہ کے ایک سابق سفیر رونلڈ نیومن کا کہنا ہے کہ وکی لیکس کے انکشافات سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ آنے والے کئی برسوں تک نہیں ہو سکے گا ۔

گو امریکی عہدیدار تسلیم کرتے ہیں کہ سامنے آنے والی دستاویز میں کئی نئی بات نہیں ہے، مگر ان کا کہنا ہے کہ ان دستاویزات میں جن عہدیداروں کا ذکر ہے، ان کی سیکیورٹی خطرےمیں پڑ سکتی ہے ۔ صدر اوباما نے ویب سائٹ کی تفصیلات عام ہونے کے بعد تمام سرکاری اداروں میں حساس معلومات کے تحفظ کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی ہدایت جاری کی ہے اور خیال ہے کہ امریکی فوج کے حساس معلومات کے شعبے کے ایک ماہر بریڈلی میننگ کو، جسے اس سال مئی میں حساس معلومات ڈاؤن لوڈ کرنے اور عام کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا ، کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ اس معاملے کی مکمل مجرمانہ تفتیش کا کام شروع کر دیا گیا ہے ۔

دوسری طرف امریکی انتظامیہ یہ تحقیق بھی کر رہی ہے کہ آیا وکی لیک کے بانی جولین اسانج نے ان سرکاری دستاویزکو عام کرکے امریکی قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور کیا ان کے خلاف امریکہ کےEspionage Act کے تحت مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے ؟

ایک امریکی وکیل ، صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن ڈیفنی ایوئیاٹار کہتی ہیں کہ گیارہ ستمبر کے بعد امریکی حکومت نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اپنے خفیہ اداروں کے درمیان زیادہ قریبی رابطوں کی ضرورت محسوس کی ۔ جس سے ان اداروں کے معمولی اہلکاروں کو بھی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی خفیہ معلومات تک رسائی دے دی گئی جو نہیں ہونی چاہئے تھی ۔ اس لئے اب اوباما انتظامیہ اس معاملے کی مضمرات پر بھرپور نظر ثانی کرے گی اور کس کے پاس خفیہ معلومات تک رسائی ہونی چاہئے ، اس پر بھی بہت سوچ بچار کی جائے گی ۔

تاہم سابق امریکی وکلاء نے خبردار کیا ہے کہ ان دستاویز کو عام کرنے کے جرم پر جولین اسانج یا کسی دوسرے شخص پر مقدمہ قائم کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا، کیونکہ امریکہ کا ایسپیوناج ایکٹ جو 1917ء میں منظور ہوا تھا ، اور جس کی روشنی میں، بعد میں امریکی سپریم کورٹ نے آئین میں پہلی ترمیم کے تحت لوگوں کو اظہار رائے کا تحفظ فراہم تھا ، اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ افشا کئے گئے کن سفارتی پیغام سے کس کی سلامتی خطرے میں پڑی ، عدالت کے سامنے مزید خفیہ سرکاری دستاویز ثبوت کے طور پر پیش کرنی پڑیں گی ، جو امریکی حکومت نہیں چاہے گی ۔