مزارِ قائد مبینہ زیادتی کیس میں ملزمان کو تیرہ سال بعد بھی سزا کیوں نہ مل سکی؟

فائل فوٹو

پاکستان کے صوبۂ سندھ کے شہر کراچی میں بانئ پاکستان محمد علی جناح کے مزار سے لڑکی کے اغوا اور مبینہ زیادتی کے کیس میں عدالت نے تینوں ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے دوسری بار بری کردیا ہے۔

صوبۂ پنجاب کے ضلع لودھراں سے تعلق رکھنے والا خاندان 2008 میں سیہون اور کراچی گھومنے آیا لیکن بانئ پاکستان کے مزار پر خاندان کی ایک لڑکی کو رات کے اندھیرے میں اغوا کیا گیا تھا اور مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

واقعے کا مقدمہ مقامی عدالت میں چلا تھا اور اب 13 برس بعد خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے تینوں ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے اس الزام میں دوسری بار بری کر دیا گیا ہے۔

اس سے قبل چھ اپریل 2013 کو انہیں الزامات پر ملزمان کو بری کیا گیا تھا۔ البتہ متاثرہ خاتون نے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ جس پر رواں سال 21 مئی کو سندھ ہائی کورٹ نے کیس کو دوبارہ سیشن کورٹ بھیج دیا تھا۔

رواں ماہ آٹھ اکتوبر کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کراچی شرقی کے جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ جہاں سرکار کیس میں براہ راست واقعاتی شواہد کو گواہوں کے بیانات کے ذریعے ثابت کرنے میں ناکام رہی وہیں عدالت نے ڈی این اے ٹیسٹ کو بھی زیادتی کے کیس میں بطور شواہد تسلیم کرنے سے بلواسطہ انکار کیا ہے۔

عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ ڈی این اے کے ذریعے کسی بچے کے اصل ورثا کے بارے میں معلوم کرنے اس کی شواہد کے طور پر اہمیت مانی جا سکتی ہے۔ لیکن زیادتی کے کیس کو ثابت کرنے کے لیے شہادتوں کے الگ معیارات ہیں۔

SEE ALSO: پاکستان میں جنسی زیادتی کے جرم میں کیا سزائیں ہو سکتی ہیں؟

عدالت کا کہنا تھا کہ زیادتی کا الزام عائد کرنے والے فریق کو اپنا کیس ثابت کرنے کے لیے چار گواہ پیش کرنا ضروری ہیں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں قرآن کی سورہ نور کی چوتھی آیت کی روشنی میں وہ فریق سزا کا مستحق ہو گا جس نے غلط الزام عائد کیا ہے۔

استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا، عدالت

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پراسیکیوشن (استغاثہ) گواہوں اور متاثرہ خاتون کے ذریعے ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے علاوہ سرکار کی پیش کی گئی کہانی میں بھی تضادات تھے جب کہ میڈیکو لیگل افسران کی عدالت میں دی گئی گواہی نے بھی کیس میں اہم کردار ادا کیا۔

ان افسران نے عدالت میں گواہی دی کہ خاتون پر ریپ سے متعلق تشدد کا کوئی زخم نظر نہیں آیا۔ یہی نہیں بلکہ متاثرہ خاتون کو وومن میڈیکل آفیسر کے سامنے واقعے کے دو روز بعد پیش کیا گیا۔ جب کہ جائے وقوعہ سے ملنے والی اشیا پر بھی خون کے دھبے یا دیگر شواہد نہیں ملے جنہیں ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خون اور سیمین کے نمونے میڈیکو لیگل افسران کے دستخط شدہ اور سربمہر نہیں تھے۔ اسی طرح طبی شواہد کی بنا پر استغاثہ کے کیس میں کئی نقائص تھے۔

'ڈی این اے کو بطورِ ثبوت قبول نہ کرنا حیران کن ہے'

مذکورہ کیس میں متاثرہ خاتون کی وکیل بیرسٹر آمنہ عثمان نے عدالت کی جانب سے ڈی این اے کو بطور شواہد قبول نہ کرنے پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسی نکتے کی بنا پر ہائی کورٹ نے کیس دوبارہ شنوائی کے لیے سیشن کورٹ منتقل کیا تھا۔ لیکن دوسری بار بھی ڈی این اے کو بطور شواپد قبول کرنے کی ان کی استدعا عدالت نے مسترد کر دی۔

انہوں نے بتایا کہ اگرچہ عدالت نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ ڈی این اے سیمپلنگ ٹھیک طریقے سے نہیں کی گئی تاہم عدالت کا زیادہ زور اس بات پر رہا کہ زیادتی کے کیس میں ڈی این اے کی بطور ثبوت اہمیت کم اور چار گواہوں کی اہمیت زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ یقیناً اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گی۔

بیرسٹر آمنہ عثمان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کئی کیسز میں زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے کی بطورِ ثبوت اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے سائنس، جدید فارنزک تیکنیک اور آلات کو کرمنل جسٹس سسٹم میں تحقیقات اور شواہد اکٹھے کرنے کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قانونِ شہادت آرڈیننس کا آرٹیکل 164 اس مقصد کے لیے اہم ہے جس کے تحت جدید آلات کو شواہد اکھٹا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ اس حوالے سے ماضی میں کرمنل پروسیجر کوڈ یعنی ضابطہ فوجداری قانون میں بھی بعض تبدیلیاں کرکے ڈی این اے کو جنسی زیادتی کے کیسز میں لازم قرار دیا جا چکا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

زیادتی کا شکار خواتین طبی معائنے کے دوران کس کرب سے گزرتی ہیں؟

ان کے بقول جنسی زیادتی کے کیسز میں ڈی این اے کو اہمیت دینے اور اسے ثبوت کے طور پر جمع کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کے لیے سندھ ہائی کورٹ نے تفتیشی اداروں کو گائیڈ لائنز بھی جاری کر رکھی ہیں۔ جس کے تحت پولیس کو واقعے کے فوری بعد ایف آئی آر کا اندراج ممکن بنانا ہو گا اور میڈیکو لیگل افسران کے سامنے متاثرہ خاتون کو فوری طور پر پیش کرنا بھی ضروری ہے۔

'ڈی این اے کو ثانوی شواہد کے طور پر دیکھا جاتا ہے'

البتہ پنجاب یونی ورسٹی کے لا کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شہباز احمد چیمہ نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ جنسی زیادتی کے کیسز میں پاکستانی عدالتوں میں ماہرین کی رائے کو ثبوت کی اہمیت حاصل تو ہے لیکن وہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور انہیں بنیادی شواہد کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

ان کے بقول کوئی بھی کیس صرف ماہرین کی جانب سے پیش کردہ شواہد کی بنا پر طے نہیں کیا جاسکتا جب تک اس میں کوئی بنیادی زبانی ثبوت (گواہوں کے بیانات) موجود نہ ہوں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ ڈی این اے کے نمونے کو ٹھیک طریقے سے اکٹھا کیا گیا ہو، محفوظ بنایا ہو اور اس کا ٹھیک طریقے سے تجزیہ کیا گیا ہو۔

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اگر کوئی ثبوت ٹھیک طریقے سے عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا تو اس کا خمیازہ متعلقہ فریق کو ہی بھگتنا پڑے گا کیوں کہ عدالتیں خود اپنے طور پر یہ کوشش نہیں کرتی کہ وہ کسی مخصوص کیس کی تحقیقات میں ثبوتوں کے گمشدہ ٹکڑے خود ڈھونڈ کر لائیں۔

'متاثرہ خاتون کو 13 سال بعد بھی انصاف نہ ملنا مذاق سے کم نہیں'

دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن کی کونسل ممبر عظمیٰ نورانی کہتی ہیں کہ 13 برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی متاثرہ خاتون کو انصاف نہ ملنا انصاف کے عمل کی توہین کے مترادف ہے۔

ان کے بقول خاتون کی پوری زندگی برباد ہو گئی ہے، اس کے اہلِ خانہ کس کرب سے گزرے ہوں گے اس کا اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 13 سال تک انصاف کے حصول کے لیے لڑا جاتا رہا لیکن عدالتی فیصلے میں ڈی این اے جیسے اہم ترین سائنسی ثبوت کی اہمیت کو تسلیم نہ کرنا بڑی نا انصافی کے مترادف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے نظامِ انصاف میں عدالتی اور پراسیکیوشن کی سطح پر بھی خامیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے ملزمان کو شک کا فائدہ مل کر رہائی مل گئی۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا مؤقف کیا رہا ہے؟

واضح رہے کہ پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے 2013 میں قرار دیا تھا کہ ڈی این اے کو زیادتی کے کیس میں بنیادی اور حتمی ثبوت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اسے کیس کو حل کرنے میں معاونت کے طور پر پیش کیے گئے ثبوت کے طور پر ضرور قبول کیا جاسکتا ہے۔

SEE ALSO: سندھ میں ریپ سے متعلق قوانین کے غلط استعمال میں اضافہ ہوا ہے؛ کمیشن کی رپورٹ

اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چئیرمین قبلہ ایاز نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اب تو عالمی طور پر کئی سائنسدان بھی یہ رائے دے چکے ہیں کہ صرف ڈی این اے کو ایسے کیسز میں حتمی ثبوت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔

گورنر سندھ کی زیادتی کیس کا فیصلہ چیلنج کرنے کی ہدایت

ادھر صوبۂ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو خط لکھا ہے اور صوبائی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ سیشن کورٹ کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیشن کورٹ کا فیصلہ اعلیٰ عدالتوں کے متعدد فیصلوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

گورنر کے مطابق اس فیصلے سے خواتین میں عدم تحفظ کا احساس مزید بڑھ گیا ہے اور اس پر عوام کی جانب سے شدید تحفظات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے۔

تاہم قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ ایک جانب جہاں عدالتی سطح پر اس فیصلے کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے وہیں دوسری جانب تفتیش میں کیے جانے والے ان نقائص کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے شواہد ٹھیک طو پر اکھٹے ہی نہیں کیے گئے۔ گواہوں کے بیان میں واضح تضاد نظر آیا اور پراسیکیوشن اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہی اور اس کا براہ راست فائدہ ملزمان کو شک کی بنا پر رہائی کی صورت میں ملا۔