پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدے میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟

پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف) کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ اب تک نہیں ہوسکا ہے۔معاشی ماہرین اس صورتِ حال کو پاکستان کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ معاہدے میں تاخیر کی وجہ سے ملک کو گزشتہ چھ ماہ کے دوران 10 سے 12ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے قریب ہے۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی ٹیم آئی ایم ایف کے پروگرام کو اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ہم اگلے چند دنوں میں اسٹاف لیول معاہدے پر دستخط کرنے کے بہت قریب ہوں گے۔

اسحاق ڈار کے بقول حکومت معیشت کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور جلد ہی معاشی مسائل پر قابو پالے گی۔

ادھر پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان زہرہ بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی مشکلات سے متعلق دوست ممالک کے ساتھ رابطے میں ہیں جن میں چین، سعودی عرب اور قطر شامل ہیں۔ ان ممالک کے ساتھ دفتر خارجہ بھی رابطے میں ہے اور جلد اس بارے میں مثبت خبریں آئیں گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بیشتر باتوں پر اتفاق ہوچکا ہے۔ پاکستان نے زیادہ تر شرائط پر عمل درآمد کرلیا ہے۔ لیکن ابھی گروس فنانسنگ گیپ رہ گیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

آئی ایم ایف کی فنڈنگ کے لیےاقدامات پاکستان کو ہی کرنے ہوں گے، امریکہ

تجزیہ کار فرخ سلیم کہتے ہیں کہ گروس فنانسنگ گیپ میں آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ مارچ اور جون کے درمیان سات ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں جن میں دو ارب ڈالر سعودی ارب اور 95 کروڑ ڈالر ورلڈ بینک کے ہیں۔اس کے علاوہ صرف مارچ میں دو اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی ادائیگی ہونی ہے جس میں سے دو ارب چین اور 60 کروڑ ڈالر کمرشل بینکوں کی ادائیگیاں ہیں۔

ان کے بقول اس وقت آئی ایم ایف سعودی عرب اور چین سے رابطہ کررہا ہے کہ کیا چین پاکستان کی طرف سے ہونے والی ادائیگیوں کو مؤخر کرے گا یا نہیں۔ اسی کے ساتھ سعودی عرب ان حکومتوں سے گارنٹی حاصل کررہا ہے جس کے بعد ہی اسٹاف لیول کا معاہدہ مکمل ہوسکے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ اکتوبر میں ہونا چاہیے تھا۔ پانچ چھ ماہ کی تاخیر کی وجہ سے ان کے اندازے کے مطابق 10 سے 12 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری ترسیلاتِ زر ہر ماہ تین ارب ڈالر کے قریب تھیں جن میں روپے کی قدر میں کمی اور گرے مارکیٹ کی وجہ سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ ترسیلاتِ زر کم ہو کر دو ارب ڈالر کی سطح سے نیچے آگئی ہیں۔ اس کے علاوہ برآمدات میں بھی کمی ہوئی ہے جس سے نقصان ہوا ہے۔

ان کے بقول "صرف آئی ایم ایف کو آنکھیں دکھانے سے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔"

آئی ایم ایف کی طرف سے درآمدات پر عائد پابندیاں اٹھانے کے حوالے سے شرط پر ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ یہ شرط موجود ہے لیکن اسٹاف لیول معاہدے پر اس شرط کا کوئی خاص اثر نہیں ہے کیوں کہ پاکستان رفتہ رفتہ درآمدات پر عائد پابندیوں کو ہٹا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سات ارب ڈالر کی ضرورت ہے جس میں سے آئی ایم ایف ایک ارب ڈالر دے گا۔ لیکن ایک بینکر کی سوچ کے مطابق اگر چھ ارب ڈالر پاکستان کو نہ ملے تو آئی ایم ایف سے ملنے والے ایک ارب ڈالر کا بھی نقصان ہوگا۔ لہٰذا آئی ایم ایف اسی کے مطابق بات کر رہا ہے اور پاکستان سے زیادہ شرائط منوا رہا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

چند ماہ میں پاکستانی معیشت کو بہتر نہیں کیا جا سکتا، تجزیہ کار


ڈاکٹر فرخ سلیم کے بقول آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوجائے گا۔لیکن اس میں تاخیر سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے۔ اس معاہدے کے بعد تین مراحل ہیں جن میں پہلی اسٹاف لیول معاہدہ ہے۔ اس کے بعد لیٹر آف انٹینٹ ہے جس کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ بلائی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ تینوں مراحل میں سے پہلا مرحلہ بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا انہیں لگتا ہے کہ اپریل میں یہ معاہدہ مکمل ہوگا جس کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کی قسط موصول ہوگی۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار شہباز رانا بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس وقت اصل مسئلہ صرف گروس فنانسنگ گیپ کا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سات ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں جب کہ پاکستان کے خیال میں یہ رقم پانچ ارب ڈالر ہے۔ پاکستان نے کہا ہے کہ ہم یہ رقوم خلیجی ممالک سے حاصل کرلیں گے لیکن پاکستان کو اب تک ان ممالک کی طرف سے یقین دہانی میں تاخیر ہورہی ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر ہو رہی ہے۔

شہباز رانا کے بقول آئی ایم ایف شرح سود چھ سے سات فی صد تک بڑھانے کا کہہ رہا ہے۔لیکن حال ہی میں اس میں تین فی صد اضافہ کیا گیا ہے جو فنڈ کے شرائط کے مطابق تھا یا نہیں اس بارے میں اسٹیٹ بینک نے کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ انتظامی امور پر حکومتِ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ابھی تک اتفاق نہیں ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو درآمدات کو محدود کرنے کے حوالے سے کہا تھا کہ ان پابندیوں کو ختم کیا جائے، اسی طرح بعض دیگر چھوٹے معاملات موجود ہیں جن پر تیزی سے کام ہونا چاہیے۔

SEE ALSO: پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض لینے میں مشکلات, دوست ممالک سے امیدیں وابستہ

اسٹاف لیول معاہدے پر شہباز رانا کا کہنا تھا کہ اس معاہدے پردستخط کے حوالے سے کوئی حتمی تاریخ اب تک سامنے نہیں آئی۔ لیکن پاکستان کو ان تمام حل طلب باتوں کو جلد حل کرنا ہوگا ورنہ تاخیر پاکستان کے لیے ہی مشکلات میں اضافے کا باعث بنے گی۔

سینئر صحافی مہتاب حیدر نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستانی حکام کا اعتماد کا فقدان ہے۔ ماضی میں جب معاہدےہوتے تھے تو اسٹاف لیول معاہدے کے بعد پاکستان طے پانے والی چیزوں پر عمل درآمد کرتا تھا لیکن اس مرتبہ آئی ایم ایف نے معاہدےے پہلے ہی تمام مطالبات پر عمل درآمد کا کہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان تمام تر اقدامات کر رہا ہے۔

ان کے بقول دوسرا اہم مسئلہ بجٹ خسارے کی فنانسنگ کا ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے مطابق پاکستان اسٹیٹ بینک سے ادھار نہیں لے سکتا۔ لہٰذا اس صورتِ حال میں پاکستان یا تو بیرونِ ممالک سے پیسے جمع کرے یا پھر مقامی بینکس سے قرض حاصل کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان پیپرا قوانین سے کوئی استثنیٰ حاصل نہ کرے۔

مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اب تک سخت اقدامات کرلیے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بیرونِ ملک سے آنے والی مدد اور بجٹ خسارے کی فنانسنگ کے معاملات حل نہ ہونے کی وجہ سے اب تک اسٹاف لیول معاہدہ نہیں ہوسکا ہے۔