اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف اس ہفتے یہ فیصلہ کرنے کے لیے سماعت کرے گی کہ آیا غزہ میں جنگ کو روکنے کے لیے اسرائیل کے خلاف کوئی عبوری اقدام لانے کی ضرورت ہے۔
جنوبی افریقہ کی حکومت کی فلسطینی عوام کے ساتھ دیرینہ یک جہتی کی ایک طویل تاریخ ہے۔
جنوبی افریقہ نے ہیگ میں قائم انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس ،( آئی سی جے) یا بین الاقوامی عدالت انصاف میں یہ الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ جمعرات اور جمعہ کو عدالت دونوں فریقوں کے دلائل سنے گی اور پھر فیصلہ کرے گی کہ آیا وہ اسرائیل کی غزہ پر بمباری بند کرنے کا عبوری حکم جاری کرے یا نہیں۔
جنوبی افریقہ کے بین الاقوامی تعلقات کے محکمے کے ترجمان کلیسن مونیلا کہتےہیں کہ انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے ارتکاب کی رپورٹس مل رہی ہیں اور ایسی رپورٹس بھی ہیں جو قتل عام یا ان جرائم کے تقاضوں پر پوری اترتی ہیں جن کی وضاحت 1948 کے نسل کشی کی روک تھام اور سزا کے کنونشن میں کی گئی ہے اور غزہ میں جاری قتل عام سے یہ جرائم جو وہاں ہوئے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں، مطابقت رکھتے ہیں۔
SEE ALSO: جنوبی افریقہ کا اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ، سماعت اسی ماہ ہو گیجنوبی افریقہ اور اسرائیل دونوں نے اس کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو قتل عام کا مجرم ثابت کرنے کے لیے اس مقدمے کی تکمیل میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ لیکن اس دوران اس ہفتے ہونے والی سماعت میں اسرائیل کے خلاف فوری حکم کا حصول ایک فوری اقدام ہے۔
وکلاء نے اس ہفتے وی او اے کو بتایا کہ اگر جنوبی افریقہ اس عدالت میں جسے اکثر اوقات عالمی عدالت بھی کہا جاتا ہے، یہ مقدمہ جیت جاتا ہے تو یہ اسرائیل کے لیے ایک بین الاقوامی شرمندگی کی بات ہو گی ۔
فلسطینی موقف کے لیے جنوبی افریقہ کی حمایت دیرینہ ہے۔
برسٹل میں قائم یونیورسٹی آف دی ویسٹ آف انگلینڈ میں جنوبی افریقہ کے قانون کے پروفیسر گیرہرڈ کیمپ کہتے ہیں کہ فلسطینی موقف کے لیے جنوبی افریقہ کی حمایت دیرینہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک تاریخی وجہ بھی ہے۔ جنوبی افریقہ کی حکمران جماعت افریقن نیشنل کانگریس کا غزہ کے فلسطینی عوام کے ساتھ اور فلسطینی آزادی کی تحریکوں کے ساتھ بہت پرانا تعلق ہے۔ چنانچہ اس بات کی بھی تاریخی اہمیت ہے کہ جنوبی افریقہ نے اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف میں لانے میں سبقت حاصل کی ہے۔
افریقن نیشنل کانگریس، یا اے این سی کا، جو کبھی خود آزادی کی ایک ممنوعہ تحریک تھی اور جس نے جنوبی افریقہ میں نسل پرست سفید فام نسل پرست حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی تھی ، کہناہے کہ اسے فلسطینیوں کی حالت زار میں اپنے ماضی کی جھلک نظر آتی ہے۔
اسرائیلی موقف
وائس آف امریکہ نے اس ہفتے اسرائیلی حکومت کے ترجمان ایلون لیوی سے انٹرویو کیا تھا۔ دیگر سوالوں کے علاوہ جب انٹرویور نے کہا کہ" کچھ تو اسرائیل پر نسل کشی کا الزام بھی لگا رہے ہیں یا کم ازکم ایسا ارادہ رکھنے کا الزام لگا رہے ہیں اور آپ کی حکومت کے کچھ وزراء نے خود غزہ کو مٹانے کی بات کی ہے؟"
تو اسرائیلی ترجمان نے انہیں روکتے ہوئے کہاکہ "نہیں نہیں. معذرت کے ساتھ میں آپ کو روکوں گا. 7 اکتوبر کو حماس نےنسل کشی کا ارتکاب کیاہے۔ حماس نے ایک واحد مقصد کے ساتھ ڈیتھ اسکواڈ بھیجے جس میں زیادہ سے زیادہ اسرائیلیوں کو جلانے، سر قلم کرنے، تشدد کرنے، مسخ کرنے، قتل عام،ریپ اور اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، جتنی وہ کر سکتے تھے، وحشیانہ طریقے سے۔ یہ حماس کا مشن تھا۔ اور تب سے، ہم حماس کو دوبارہ ایسا کرنے سے روکنے اور یرغمالوں کو واپس لانے کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔"
SEE ALSO: حماس کے ہتھیار ڈالنے تک جنگ جاری رہے گی، اسرائیلی ترجمان سے وی او اے کاانٹرویوواضح رہے کہ حماس نے اسرائیل کےان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور اب تک اسرائیل نے کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے ہیں۔
تازہ ترین پیش رفت میں اس الزام کی چھان بین کے لیے اقوام متحدہ کے مقر کردہ دو ماہرین نے اسرائیل سے مزید قابل تصدیق شواہد فراہم کرنے کے لیے کہا ہے۔
عالمی عدالت کے فیصلوں پر عمل کی پابندی ہے یا نہیں؟
تاہم، اگرچہ عدالت کے فیصلے پر عمل کرنے کی پابندی ہوتی ہے، لیکن ان پر ہمیشہ عمل نہیں کیا جاتا۔ مثال کے طور پر روس نے ابھی تک 2022 کے آئی سی جے کے اس حکم کی تعمیل نہیں کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ وہ یوکرین پر اپنے حملے کو روکے۔
SEE ALSO: اسرائیل حماس لڑائی میں جنگی جرائم کا مرتکب کون؟جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی آف دی وٹ واٹرسرینڈ میں بین الاقوامی قانون کے وزٹنگ پروفیسر میا سوارٹ کہتے ہیں کہ فیصلے پر عمل درآمد عمومی طور پر عالمی عدالت کے بین الاقوامی انصاف کا کمزور پہلو ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ امکان یہ ہے کہ اسرائیل اپنی تمام فوجی کارروائیاں نہیں روکے گا۔ اور اگر عدالت حکم دیتی ہے تو اسے سلامتی کونسل جانا پڑے گا۔
اقوام متحدہ کے اس ادارے کے ایک مستقل رکن کے طورپر امریکہ کے پاس ویٹو کے اختیارات ہیں اور وہ اسرائیل کا مضبوط اتحادی ہے۔ واشنگٹن، اسرائیلی حکومت کی طرح جنوبی افریقہ کے دائر کیے جانے والے مقدمے کے متعلق کہتا ہے کہ وہ میرٹ پر پورا نہیں اترتا۔
جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا سابق فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے قریبی دوست تھے اور ان کی اس بات کو شہرت ملی تھی کہ جنوبی افریقہ کی آزادی اس وقت تک مکمل نہیں ہو گی جب تک فلسطینی بھی آزاد نہیں ہوجاتے۔
(کیٹ برٹیلٹ، وی او اے نیوز)