لاہور سمیت پنجاب کے سات شہروں میں دفعہ 144 کا نفاذ، معاملہ ہے کیا؟

PTI

  • پنجاب حکومت لاہور سمیت صوبے کے سات شہروں میں دفعہ 144 لگا چکی ہے۔
  • سیاسی ماہرین کے مطابق تحریکِ انصاف کا احتجاج روکنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
  • احتجاج ہر کسی کا آئینی حق ہے، لیکن یہ پرامن رہنا چاہیے: تجزیہ کار سہیل وڑائچ
  • حکومت تحریکِ انصاف کے احتجاج سے خوف زدہ ہے: رُکن پنجاب اسمبلی فرخ جاوید مون

لاہور -- پاکستان کے صوبے پنجاب کی حکومت لاہور سمیت صوبے کے سات شہروں میں دفعہ 144 نافذ کر چکی ہے جس کا مقصد صوبے میں امن و امان بتایا جا رہا ہے۔ تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کی جانب سے احتجاج کو روکنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

پنجاب حکومت کا یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے عدلیہ کی آزادی اور جمہوریت کے لیے لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔

تحریکِ انصاف نے پانچ اکتوبر کو مینارِ پاکستان لاہور میں جلسہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کے مطابق یہ جلسہ عمران خان کے یومِ پیدائش کی خوشی میں رکھا گیا ہے۔

تحریکِ انصاف نے بدھ کو فیصل آباد، میانوالی، ٹوبہ ٹیک سنگھ، بہاولپور میں اجازت نہ ملنے اور دفعہ 144 کے نفاذ کے باجود عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مظاہرے بھی کیے تھے۔

محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے جاری کیے گئے مراسلوں کے مطابق سیکشن 144 امن وامان کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے لگائی گئی ہے جب کہ سیاسی مخالفین سمجھتے ہیں کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور اس کا مقصد پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے مظاہروں کو روکنا ہے۔

حکومت پنجاب نے لاہور میں چھ دن کے لیے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے شہر میں ہر قسم کے سیاسی اجتماعات، دھرنے، جلسے، مظاہرے، احتجاج اور ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ پابندی کا اطلاق جمعرات تین اکتوبر سے منگل آٹھ اکتوبر تک ہو گا۔

اِس سے قبل محکمہ داخلہ پنجاب نے صوبے کے چھ اضلاع میں دفعہ 144 کا نفاذ کرتے ہوئے ہر قسم کے سیاسی اجتماعات، دھرنے، جلسے، ریلی اور مظاہروں پر پابندی لگائی تھی۔

حکومت پنجاب نے میانوالی میں سات روز جب کہ فیصل آباد، بہاولپور، ٹوبہ ٹیک سنگھ، چنیوٹ اور جھنگ میں دو دن کے لیے دفعہ 144 نافذ کر رکھی ہے۔

محکمہ داخلہ پنجاب نے میانوالی میں تین روز کے لیے پنجاب رینجرز تعینات کر رکھی ہے۔ سرکاری مراسلے کے مطابق سیکیورٹی خطرات کے پیشِ نظر کوئی بھی عوامی اجتماع دہشت گردوں کے لیے 'سافٹ ٹارگٹ' ہو سکتا ہے۔

ذرائع محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق ماسوائے ضلع میانوالی کے بیک وقت صوبے کے اتنے شہروں میں دفعہ 144 کا نفاذ سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہے۔

ذرائع محکمہ داخلہ پنجاب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ میانوالی ضلع کی حدود صوبے خیبرپختونخوا کے چار اضلاع کے ساتھ ملتی ہے جن میں ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، کوہاٹ اور کرک شامل ہیں۔ لہذٰا دہشت گردی کے خدشات کے پیشِ نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

خیال رہے صوبہ پنجاب کا ضلع میانوالی پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کا آبائی ضلع ہے۔ جہاں سے وہ تین مرتبہ رکنِ قومی اسمبلی بن چکے ہیں۔

'حکومت کا ڈر ہے کہ زیادہ لوگ باہر نہ نکل آئیں'

تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد میں تو احتجاج یا جلسے نہ کرنے کی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ وہاں غیر ملکی وفود کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ لیکن دیگر شہروں میں حکومت کو یہ ڈر ہے کہ کہیں بہت زیادہ لوگ نہ نکل آئیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ احتجاج جمہوری حق ہے مگر تحریکِ انصاف کو بھی یہ یقینی بنانا چاہیے کہ احتجاج پرامن رہے۔

فائل فوٹو

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج کی کال کا تحریکِ انصاف کو بھی فائدہ ہو گا کیوں کہ اگر اسٹیج سے دھمکیاں دی جائیں گی تو اس سے کارکن بھی خوف محسوس کریں گے۔

سہیل وڑائچ کے مطابق یہ بھی ماننا پڑے گا کہ نو مئی کے بعد سے حکومت کے اقدمات سخت اور جارحانہ ہیں۔ دوسری طرف حکومت کو یہ بھی خدشہ ہے کہ ایک مقبول سیاسی جماعت کو پوری طرح دبایا نہیں جا سکا۔

'حکومت تحریکِ انصاف کے احتجاج سے خوف زدہ ہے'

پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکن اور رُکن پنجاب اسمبلی فرخ جاوید مون کہتے ہیں کہ پابندیوں کے باوجود تحریکِ انصاف کا کارکن متحرک ہے اور حکومت اسی لیے خوف زدہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ لاہور اور راولپنڈی کے جلسے اِس بات کا ثبوت ہیں کہ جلسے کامیاب بھی ہیں اور پرامن بھی کیوں کہ تحریکِ انصاف ایک پرامن سیاسی جماعت ہے۔

فرخ جاوید کی رائے میں پاکستان تحریکِ انصاف کے جلسوں میں ریاستی اداروں پر تنقید نہیں کی جاتی۔ یہ محض اُن پر ایک الزام ہے۔ فرخ جاوید کے مطابق ریاستی اداروں پر تنقید کا سلسلہ اُن کی مخالف سہیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے متعارف کرایا تھا۔

SEE ALSO: بلاول بھٹو وفاقی آئینی عدالت کے حق میں اتنے سرگرم کیوں ہیں؟

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں پنجاب حکومت کی ترجمان اور وزیرِ اطلاعات اعظمٰی بخاری سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ وزیراعلٰی پنجاب کے ساتھ میٹنگ میں مصروف ہیں۔ فی الحال اِس موضوع پر بات نہیں کر سکتیں۔

تاہم وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز نے گزشتہ روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف دن رات کام کر رہے ہیں، ملک ٹیک آف کر گیا ہے۔ ابھی بھی کچھ لوگ انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اتنے شہروں میں بیک وقت دفعہ 144 کا نفاذ سیاسی وجہ معلوم ہوتی ہے۔ لہذٰا ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریق ذمے داری کا مظاہرہ کریں۔