|
ویب ڈیسک — غزہ کے فلسطینی کیمپس میں کئی خیموں پر اُن امریکی طلبہ کے لیے شکریہ کے پیغامات درج ہیں جہاں اسرائیل کے غزہ میں حملوں کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔
لیکن وہیں بعض فلسطینی یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ اس جنگ پر عرب ممالک میں امریکہ جیسے احتجاج کیوں نظر نہیں آرہے ہیں جنہیں وہ اپنا اتحادی اور مدد گار تصور کرتے ہیں۔
رواں ہفتے امریکہ کی متعدد جامعات میں غزہ جنگ کے خلاف شدید احتجاج سامنے آیا ہے۔ کئی مقامات پر طلبہ اور مخالف مظاہرین کے درمیان تصادم بھی ہوا ہے۔ اگرچہ اس دوران بعض عرب ریاستوں میں کہیں کہیں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں لیکن ان کے حجم اور شدت کا موازنہ امریکہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔
جنوبی غزہ میں رفح کیمپ میں اپنے پانچ بچوں کے ساتھ مقیم 44 سالہ احمد رازق کا کہنا ہے "ہم روز سوشل میڈیا پر احتجاجی مظاہروں کو احساس تشکر کے ساتھ دیکھتے ہیں لیکن اس میں اداسی بھی شامل ہوجاتی ہے۔ ہمیں اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ یہ احتجاج عرب اور مسلم ممالک میں نہیں ہو رہے۔‘‘
اسرائیل کے حملے کے بعد غزہ کے رفح پناہ گزین کیمپ میں 10 لاکھ سے زائد فلسطینی مقیم ہیں۔ اس کیمپ کے خیموں پر جگہ جگہ ایسی عبارتیں لکھی نظر آتی ہیں "غزہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے پر طلبہ آپ کا شکریہ! آپ کا پیغام ہم تک پہنچ گیا ہے۔ کولمبیا کے طلبہ آپ کا شکریہ!"
عرب ممالک میں خاموشی کیوں ہے؟
امریکہ اور مغربی ممالک کے مقابلے میں عرب دنیا میں غزہ جنگ سے متعلق نظر آنے والی خاموشی کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں قائم زیادہ تر مطلق العنان حکومتیں حماس اور اس کے پشت پناہ ایران سے شدید اختلاف رکھتی ہیں۔ اس لیے وہاں اس بات کا خدشہ پایا جاتا ہے کہ غزہ کی صورتِ حال پر ہونے والے احتجاج سے ریاستی پالیسی بھی متاثر ہوگی۔
امریکہ کی اعلیٰ ترین جامعات میں مظاہرے کرنے والے طلبہ کو اپنے تعلیمی اداروں سے معطلی اور گرفتاری جیسے نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے لیکن اگر عرب دنیا کے شہری بغیر ریاستی اجازت کے احتجاج کرتے ہیں تو انہیں کئی گنا شدید نتائج بھگتنا ہوں گے۔
امریکہ میں طلبہ کے زیادہ شدت سے مظاہرے کا ایک محرک یہ بھی ہے کہ امریکی حکومت اسرائیل کو ہتھیار بھی فراہم کرتی ہیں۔ جب کہ اسرائیل سے تعلقات رکھنے والے عرب ممالک بھی غزہ میں اس کی کارروائیوں کے شدید ناقد ہیں۔
مراکش سے لے کر عراق تک سبھی عرب ملکوں میں رائے عامہ اسرائیل کے اقدامات کے خلاف اور غزہ کے حق میں ہے۔ غزہ کی صورتِ حال کی وجہ سے پورے عرب خطے میں گزشتہ ماہ رمضان اور عید کے مواقع پر بھی روایتی جوش نظر نہیں آیا۔
بعض عرب ممالک میں فلسطینیوں کی حمایت کے لیے ریلیاں بھی نظر آئیں۔ خاص طور پر یمن میں جہاں سے تعلق رکھنے والے حوثی ملیشیا نے بحیرہ احمر میں مسلح کارروائیوں میں حصہ لینا بھی شروع کردیا ہے۔
عرب ممالک میں سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد غزہ میں ہونے والی تباہی اور وہاں جنم لینے والے انسانی المیوں کے بارے میں پوسٹس بھی شیئر کرتے ہیں لیکن سڑکوں پر نہیں نکلتے۔
SEE ALSO: امریکی جامعات میں طلبہ کا احتجاج، گرفتاریوں کی تعداد 2100 سے تجاوزعرب ممالک میں مظاہرے نہ ہونے کی کوئی بھی وجہ ہو تاہم اب فلسطینی امریکہ میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کا موازنہ عرب اور مسلم ممالک سے کرنے لگے ہیں۔
شمالی غزہ سے بے گھر ہونے والی سوہا الکفارنہ کا کہنا ہے کہ "میں عرب طلبہ سے کہنا چاہوں گی کہ ایسا احتجاج کریں جیسا امریکی طلبہ نے کیا ہے۔ انہیں ہمارے لیے امریکیوں سے زیادہ کچھ کرنا چاہیے۔"
رائے عامہ سے خطرہ؟
مصر نے 1979 میں اسرائیل سے جنگ بندی کرکے سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے۔ اس وقت وہاں عبدالفتح السیسی کی حکومت ہے جس نے کسی بھی طرح کے عوامی مظاہروں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف ہونے والے مظاہرے کہیں حکومت کے خلاف احتجاج کی شکل اختیار نہ کرلیں۔
گزشتہ برس اکتوبر میں حکومت کی اجازت سے غزہ جنگ کے خلاف احتجاج ہوا تھا جس میں بعض مظاہرین نے طے شدہ راستوں سے ہٹ کر بھی احتجاج کیا اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت کے خلاف بھی نعرے بازی کی تھی۔
مصر میں انسانی حققوق لیے کام کرنے والی تنظیم 'ایجپشن انیشیٹیو فار پرسنل رائٹس' کے سربراہ حسام بہجت کہتے ہیں کہ مصر میں غزہ کی صورتِ حال پر بڑے احتجاج نہ ہونے کو مصر میں ہر طرح کے عوامی مظاہروں کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔
قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں غزہ کی صورتِ حال پر ہونے والے مظاہروں میں مصری سیکیورٹی فورس نے زیادہ مداخلت نہیں کی لیکن شناخت ظاہر کیے بغیر خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے بات کرنے والے طلبہ کا کہنا تھا کہ احتجاج کے بعد انہیں ابھی تک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
SEE ALSO: ترکیہ نے اسرائیل کے ساتھ تمام تجارت بند کر دی
حسام بہجت کا کہنا ہے کہ احتجاج کرتے ہوئے امریکہ میں گرفتار ہونے اور مصر میں گرفتار ہونے میں بہت بڑا فرق ہے۔ خوف کا یہی عنصر ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگ سڑکوں پر آنے سے ڈرتے ہیں۔
'رائٹرز' کے مطابق لبنان میں طلبہ زیادہ محتاط ہیں کیوں کہ ملک میں کئی برسوں سے جاری سیاسی اور معاشی مشکلات کے باعث محدود مواقع ہونے کی وجہ سے ان کے لیے تعلیم بقا کا مسئلہ بن گیا ہے۔
رائٹرز کی جانب سے بیروت میں جامعات کے متعدد طلبہ سے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اپنے خلاف کارروائی کے خوف سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔
لبنان اور بڑی تعداد میں فلسطینی پناہ گزین کی میزبانی کرنے والے اردن جیسے عرب ممالک کے فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات کی تاریخ بہت پیچیدہ ہے۔
لبنان میں بعض لوگ 1975 سے 1990 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے لیے فلسطینیوں کو ذمے دار سمجھتے ہیں۔ بعض کو خدشہ ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی کسی بھی احتجاجی لہر کو ایران نواز حزب اللہ ہائی جیک کرلے گی جو غزہ تنازع کے آغاز سے قبل ہی اسرائیل کے ساتھ کشیدگی جاری رکھے ہوئے ہے۔
بیروت کی امریکن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تاریخ کے پروفیسر مکارم رباح کا کہنا ہے کہ عرب دنیا میں کولمبیا یا امریکہ کی جامعات جیسا ردِ عمل اس لیے نظر نہیں آتا کہ عرب طلبہ کو یہ سہولت دست یاب نہیں ہے۔
ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رائے عامہ کی اکثریت فلسطینیوں کے حق میں ہے اس لیے یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اگر مظاہرے کیے بھی جائیں تو ان سے حاصل کیا ہوگا۔
SEE ALSO: امریکہ کی جامعات میں کب کب احتجاجی تحریکیں سامنے آئیں؟
لبنانی نژاد امریکی طالبہ تمارا رسمانے کو کولمبیا میں ہونے والے دھرنے میں شرکت کی وجہ سے ان کی ڈگری تفویض ہونے سے قبل ہی معطل کردیا گیا۔
انہیں گریجویشن کی تقریب میں تقریر بھی کرنا تھی جس میں وہ اپنے خیالات کا پُر زور اظہار کرسکتی تھیں لیکن ان کا خیال ہے کہ تقریر میں اپنی رائے کا اظہار بھلے ہی جرات مندی ہے تاہم وہ احتجاج میں اس لیے شریک ہوئیں کہ جو وہ کہہ رہی ہیں اسے خود بھی سن رہی ہیں یا نہیں۔
نیویارک میں رائٹرز سے بات کرتے ہوئے رسمانے کا کہنا تھا کہ یقینی طور پر اگر وہ اپنے ملک لبنان میں ہوتیں تو اس آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر پاتیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ لبنان میں ہوتیں تو ان کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہوتا کہ جو کچھ ان کے سامنے ہو رہا ہے اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے انہیں سڑک پر نکل کر احتجاج کرنے جیسا کوئی پلیٹ فورم بھی نہیں مل سکتا تھا۔
اس خبر کا مواد خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔