پاکستان میں صحافیوں کے خلاف ان دنوں غداری کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر یہ الزام عائد کرنے والوں نے مختلف صحافیوں کا تعلق بھارت کے ساتھ جوڑتے ہوئے انہیں ملک دشمن قرار دیا ہے۔
اس معاملے میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قانون میں آزادی اظہار رائے اور جان کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ تاہم غداری کے الزامات کے حوالے سے کوئی الگ قانون موجود نہیں ہے۔
پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی غیرجانبدارانہ تحقیقات جاری ہیں اور حکومت صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
صحافیوں پر غداری کے الزامات
حالیہ دنوں میں صحافیوں کے خلاف غداری کے الزامات میں اضافہ ہوا ہے اور سینئر صحافی حامد میر کو حالیہ دنوں میں نیشنل پریس کلب کے باہر ان کی ایک تقریر پر ان کے پروگرام سے آف ایئر کردیا گیا ہے اور ان کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں غداری کے الزامات کے تحت مقدمات کے اندراج کے لیے درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ صحافی عاصمہ شیرازی کے خلاف بھی مقدمات کے اندراج کے لیے درخواست دی گئی ہے۔
صحافیوں پر مقدمات درج کروانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر انہیں ٹرول کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور ان کے خلاف اور حق میں ٹرینڈ بنائے جا رہے ہیں۔
حامد میر اور عاصمہ شیرازی کے خلاف حالیہ دنوں میں ایک وی لاگر مخدوم شہاب نے الزام عائد کیے کہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھارت سے چلائے جا رہے ہیں۔ اس الزام پر سوشل میڈیا پر دونوں صحافیوں کے حق میں اور ان کے خلاف ٹویٹس کی جاتی رہیں۔
اس بارے میں صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ مجھ پر غداری کے الزامات نئے نہیں ہیں، ماضی میں بھی مجھ پر الزامات عائد کیے گئے لیکن میں ان کے جواب میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر مجھ پر مقدمات قائم کرنے ہیں تو کر دیں۔ اگر مجھے جیل میں ڈالنا ہے تو ڈال دیں لیکن صحافیوں پر حملے بند کر دیں۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ صحافیوں پر حملے کرنے والوں اور حق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو رکنا ہو گا۔ اگر وہ اپنی روش تبدیل نہیں کرتے تو ہم بھی اپنی روش تبدیل نہیں کریں گے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ جب آزادی اظہار رائے کی بات کی جاتی ہے، اس کے ساتھ ہی درخواستیں تھانوں میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس عمل کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے کہ ایسے الزامات لگا کر صحافیوں کی زندگیوں کو خطرے میں کیوں ڈالا جارہا ہے۔
صحافیوں کے لیے غداری کے الزام، قانون کیا کہتا ہے؟؟
اس بارے میں سینئر قانون دان کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 19 اور 9 موجود ہیں جنہیں اگر ملا کر پڑھا جائے تو صحافیوں کو ایسے الزامات سے تحفظ حاصل ہے۔
آئین کے آرٹیکل 9 کے مطابق ہر شخص کو تحفظ حاصل ہے اور کسی بھی شخص کو قانون کے مطابق اس کی زندگی کو خطرات سے دوچار نہیں کیا جا سکتا۔ جب کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق ہر شخص کو آزادی اظہار رائے حاصل ہے۔ ہر پاکستانی کو اپنی رائے رکھنے اور اس کے اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آئین میں حاصل اس آزادی کی مدد سے ہر شخص قانون کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے آزاد ہے اور صحافیوں نے حالیہ دنوں میں بھی ایسا ہی کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں عدالتیں اس بارے میں موجود قوانین کو استعمال نہیں کرتیں۔ عدالتوں کی کمزوری کی وجہ سے ایسے الزامات عائد کیے جاتے رہتے ہیں اور صحافیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہتا ہے۔ اس کے لیے عدلیہ کو مضبوط کردار ادا کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ مثال کے طور پر موجود ہے جس میں صحافیوں کو غداری کی دفعات کے تحت کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سینئر قانون دان عابد ساقی کہتے ہیں کہ اس میں عدلیہ اپنا کردار ادا کر سکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ماضی میں ہمیشہ طاقت ور لوگوں نے قانون کو اپنے مرضی کے مطابق تروڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ صحافیوں کے خلاف مقدمات بھی ایسے ہی ہیں جن میں انہیں اپنی رائے کا اظہار کرنے پر غداری کے الزامات کا سامنا ہے۔
حکومت کا کیا کہنا ہے؟ْ
حکومت کا کہنا ہے وہ آزادی اظہار رائے پر کوئی پابندی عائد نہیں کر رہے اور ان کی طرف سے صحافیوں پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ سینئر صحافی حامد میر کو آف ایئر کیے جانے کے بعد وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں آزادی اظہار رائے کے لیے جرنلسٹ پروٹیکشن بل لے کر آ رہے ہیں اور ہم آزادی اظہار رائے پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے صحافی حامد میر کو آف ایئر کیے جانے کے حوالے سے کہا کہ اس بارے میں ہماری طرف سے کوئی دباؤ نہیں ہے۔
پاکستان میں عام طور پر صحافیوں پر دباؤ کے بارے میں الزامات ریاستی اداروں پر عائد کیے جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں صحافی اسد طور پر حملے کے بعد آئی ایس آئی نے وزارت اطلاعات کے توسط سے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں اس حملہ سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات میں تعاون کا کہا تھا۔
صحافی حامد میر اور عاصمہ شیرازی کے خلاف حالیہ دنوں میں الزام عائد کرنے والے وی لاگر مخدوم شہاب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی جو اسلام آباد میں ایک ٹی وی چینل کے ساتھ انٹرن اینکر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اس وقت ڈنمارک میں ایک سکالر شپ پر موجود ہیں۔