پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان گزشتہ برس اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی موجودہ حکومت کے خلاف متحرک ہیں۔ وہ اس دوران درجنوں جلسے اور احتجاج کر چکے ہیں تو وہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق اس دوران عمران خان اپنے سیاسی بیانیے بھی بدلتے رہے ہیں۔
عمران خان پی ڈی ایم حکومت کے خلاف لانگ مارچ بھی کر چکے ہیں جب کہ اس کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ مخالف بیانیے اختیار کرنے کے علاوہ انتخابات کے انعقاد کے مطالبے پر جیل بھرو تحریک چلا چکے ہیں۔ اب حال ہی میں اُنہوں نے عدلیہ بچاؤ تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔
مبصرین کےمطابق عمران خان حکومت اور اداروں پر سیاسی دباؤ ڈال کر جلد ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں، جس میں تاحال وہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے سیاسی بیانیوں میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ ایک بیانیہ کمزور ہوتا ہے تو عمران خان نیا بیانیہ لے آتے ہیں جس کا مقصد کارکنوں کو متحرک رکھنا ہے۔
سینئر تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ عمران خان کی سیاست اس وقت مختلف بیانیوں پر کھڑی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم اپنے دور میں جو کچھ سیاسی مخالفین کے ساتھ کرتے تھے، وہ سب کچھ آج ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ہما بقائی کا کہنا تھا کہ عمران خان کی طاقت اُن کی 'اسٹریٹ پاور' ہے اور اس طاقت کو وہ مسلسل استعمال میں نہ لائے تو کچھ عرصے میں یہ سیاسی طاقت ختم ہو جائے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کو ایک حد تک تو کامیابی ملی ہے کہ اُن کے مخالفین اُن کے خلاف بد عنوانی کا کوئی بڑا بیانیہ سامنے نہیں لا سکے جب کہ ٹیریان وائٹ کیس بھی عمران خان کی حمایت کم نہیں کر سکا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم کی حکمتِ عملی کے حوالے سے ہما بقائی نے مزید کہا کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ عام انتخابات کے انعقاد تک کارکنوں کو متحرک رکھا جائے اور پھر اسی گرم جوشی کے ساتھ انتخابات میں جا کر کامیابی حاصل کی جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہما بقائی کہتی ہیں کہ عمران خان کے مؤقف میں کچھ لچک بھی نظر آ رہی ہے کیوں کہ وہ اب بات چیت کا عندیہ دے رہے ہیں۔ لیکن بظاہر عمران خان کو بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ ملک میں فوری انتخابات ہوں گے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار راشد رحمان کہتے ہیں کہ عمران خان کا واحد مقصد اقتدار میں آنا ہے اور وہ اپنی حکومت جانے سے ملنے والی ہمدردیوں کو اب بھی استعمال کر رہے ہیں۔
’عمران خان کی نئے آرمی چیف سے معاملات طے کرنے کی کوشش‘
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے راشد رحمان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کوشش ہے کہ نئے آرمی چیف کے ساتھ معاملات طے کیے جائیں۔ لیکن بظاہر ایسا نہیں لگ رہا کہ موجودہ فوجی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی بات سنے گی کیوں کہ وہاں سے یہ پیغام آ رہا ہے کہ اُنہیں سیاست سے دُور رکھیں۔
منگل کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملک کی بڑی کاروباری شخصیات سے ملاقات کی تھی جس میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار بھی شریک تھے۔
اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں ملک کی معاشی صورتِ حال کے ساتھ ساتھ بعض سیاسی معاملات بھی زیرِ بحث آئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابق وزیرِ اعظم کی حکمتِ عملی کے حوالے سے راشد رحمان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے لانگ مارچ کیا جو کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے بعد جیل بھرو تحریک چلی وہ بھی ناکام ہوئی۔ اس وقت عمران خان صرف یہ چاہتے ہیں کہ عوامی طاقت کا استعمال کیا جائے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر شفاف الیکشن ہوئے تو وہ جیت جائیں گے۔
راشد رحمان کہتے ہیں کہ عمران خان کی گرفتاری کے معاملے پر بھی حکومت ابہام کا شکار دکھائی دیتی ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
اُن کے بقول ایسے میں ملک میں قانون کی عمل داری پر بھی سوال اُٹھ رہے ہیں۔
’عمران خان ملک کے مقبول ترین رہنما‘
تجزیہ کار اور کالم نگار سلمان عابد کہتے ہیں کہ عمران خان نے اب تک جو بھی بیانیہ بنایا اس پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس وقت ملک کے ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان عابد کا کہنا تھا کہ عمران خان کو کمزور کرنے کی اب تک کی جانے والی کوششیں ناکام ہوئی ہیں اور ان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت عمران خان کا بیانیہ ہی طاقت ور ہے اور وہ مسلسل حکومت پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابق وزیرِ اعظم کی ایک برس کی حکمتِ عملی پر سلمان عابد کہتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت 60 فی صد سے زائد ہے لیکن وہ ایک برس کے دوران مختلف بیانیے اختیار کرنے کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کی جانب سے طاقت ور اداروں کو دیا گیا چیلنج اُن کی عوامی سطح پر مقبولیت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے لیکن ساتھ ہی اداروں میں اُن کی مخالف بھی بڑھی ہے، جس سے اُن کے اقتدار میں آنے کی کوششوں کو دھچکا لگ سکتا ہے۔