حکومتِ پاکستان 'سی پیک اتھارٹی' کیوں ختم کر رہی ہے؟

میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتِ پاکستان نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں میں تیزی کے لیے گزشتہ دورِ حکومت میں بنائی جانے والی سی پیک اتھارٹی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے مضمرات اور اسباب پاکستان کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کی طرف سے حال ہی میں مسلسل ایسے بیانات سامنے آئے جن میں انہوں نے سی پیک اتھارٹی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ادارہ تین برسوں میں خاطر خواہ کام نہیں کر سکا۔

احسن اقبال کی طرف سے سی پیک اتھارٹی پر کڑی تنقید ایک ایسے وقت سامنے آ رہی ہے جب مقامی میڈیا میں ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ حکومتِ پاکستان نے سی پیک اتھارٹی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

حال ہی پاکستان کے انگریزی اخبار 'ایکسپریس ٹریبون' میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی موجودہ حکومت نےاصولی طورپر سی پیک اتھارٹی کو ختم کرنے کی منظوری دے دی ہے اور اس فیصلے سے چین کو آگاہ کر دیا جائے گا۔

جمعرات کو اسلام آباد میں ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے دعویٰ کیا کہ سی پیک اتھارٹی کے قیام کے بعد سے سی پیک منصوبوں میں ایک ڈالر کی بھی سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں 2019 میں ایک آرڈیننس کے تحت سی پیک اتھارٹی میں قائم کی گئی تھی تاکہ سی پیک کے منصوبوں پر بلاتعطل پیش رفت کے لیے تمام متعلقہ محکموں کے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 2013 میں حکومت پاکستان نے سی پیک کے تحت نو خصوصی اقتصادی زونز قائم کرنے پر کام شروع کیا، لیکن سابق دورِ حکومت میں ان میں سے کوئی بھی اقتصادی زون مکمل نہیں ہو سکا۔

Your browser doesn’t support HTML5

سی پیک کا دوسرا مرحلہ: کیا پاکستان چین کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے؟

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر یہ اقتصادی زون مکمل ہو چکے ہوتے تو چین کی کئی صنعتیں پاکستان منتقل ہو چکی ہوتیں ۔

دوسری جانب پاکستان کے سرمایہ کاری بورڈ کے سابق سربراہ ہارون شریف نے سی پیک اتھارٹی سے متعلق احسن اقبال کے بیان کو مبالغہ آرائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک اتھارٹی سے متعلق ان کے بیان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

سابق حکومت کے ساتھ منسلک بعض عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ سی پیک اتھارٹی نے پاکستان میں لگ بھگ 40 چینی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر راغب کیا ہے ۔

تحریکِ انصاف کی حکومت میں سی پیک سے متعلق وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی خالد منصور نے وفاقی وزیر احسن اقبال کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم کچھ عرصہ قبل ایک بیان میں اُنہوں نے اس تاثر کو رد کیا تھا کہ پاکستان میں سی پیک منصوبے تعطل کا شکار ہیں۔

سی پیک اتھارٹی فعال کیوں نہ ہو سکی؟


وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ہارون شریف نے دعویٰ کیا کہ چین کو اعتماد میں لینے سے پہلے ہی سی پیک اتھارٹی کو ختم کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ا س ادارے کو ختم کرنے کے بجائے اسے مزید بااختیار بنانے کے ضرورت ہے تاکہ چینی سرمایہ کاری کو پاکستان میں مزید فروغ دیا جاسکے۔

لیکن وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال یہ کہہ چکے ہیں کہ سی پیک منصوبوں کو تیز کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سی پیک اتھارٹی کو تحلیل کر دیا جائے۔

ان کےبقول وزیر ااعظم شہباز شریف نے ہدایت کی ہے سی پیک اتھارٹی کو باضابطہ طور پر ختم کرنے سے پہلے پاکستان کے اسٹریٹجک اتحادی چین کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ پاکستان نے سی پیک منصوبے کو رول بیک کر دیا ہے۔

وفاقی وزیر احسن اقبال کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت 2013 سے 2019 تک کے طریقۂ کار کو دوبار بحال کر رہی ہے تاکہ سی پیک منصوبوں پر اچھے طریقے سے عمل درآمد کیا جا سکے۔ان کے بقول اب چین نے بھی سی پیک منصوبے میں مزید سرمایہ کاری کرنے پراتفا ق کیا ہے۔

لیکن ہارون شریف کہتے ہیں کہ چین کے لیے سی پیک سے جڑے معاملات نہایت اہم اوراحسا س ہیں اور اس لیے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سی پیک اتھارٹی کو ختم کرنے کے فیصلہ کو میڈیا میں لانے سے پہلے چین کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔

یادر ہے کہ حکومت پاکستان نے چین کی مشاورت سے 2019 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے سی پیک اتھارٹی قائم کی تھی۔ لیکن اس اتھارٹی کے لیے باقاعدہ قانون 2021 میں منطور ہوا جس کے بعد یہ اتھارٹی صرف چند ماہ کے لیے ہی فعال رہی۔

پاکستان میں سی پیک کے بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی کرنا اور ان کو تجویز کرنا پلاننگ کمیشن کے تحت آتے تھے۔ لیکن چین کے ساتھ صنعتی تعاون کے معاملات بورڈ آف انوسٹمنٹ دیکھتا تھا۔ 2019 میں گزشتہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ سی پیک منصوبوں کو تیز کرنے اور تمام متعلقہ اداروں اور اسٹیک ہولڈر ز میں رابطوں کے لیے سی پیک اتھارٹی بنائی جائے۔

ہارون شریف یہ سمجھتے ہیں کہ سی پیک اتھارٹی کو ختم کرنے کے بجائے اس ادارے کو بااختیار بنا کر زیادہ فعال کیا جاسکتا تھا تاکہ سی پیک منصوبوں کو زیادہ مربوط انداز میں مکمل کیا جا سکے۔

چین کا ردِعمل

خیال رہے کہ چین نے سی پیک کے حوالے سے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار نہیں کیا، تاہم پاکستانی میڈیا میں ایسی رپورٹس آتی رہی ہیں کہ چین منصوبوں میں سست روی اور رکاوٹوں کے حوالے سے پاکستانی حکام کو اپنے خدشات سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔

سی پیک اتھارٹی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں جمعے کو چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے صحافیوں کو بتایا کہ چین اس پیش رفت سے آگاہ ہے۔

وانگ وین بن نے کہا کہ چین اور پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے سی پیک سے متعلق قریبی، مکمل اور دوستانہ رابطے میں رہے ہیں۔ وانگ وین بن نے مزید کہا کہ اسلام آباد اور بیجنگ کی مشترکہ کوششوں کی وجہ سے سی پیک پر باہمی تعاون کے سبب نتائج سامنے آئے ہیں۔