اقوامِ متحدہ نے افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امداد کے لیے دس ماہ پہلے عطیات جمع کرنے کی جو اپیل کی تھی اس کا نصف بھی حاصل نہیں ہوسکے ہیں جب کہ امداد دینے والے بڑے ملکوں میں کوئی مسلمان ملک شامل نہیں ہے۔
افغانستان کے لیے یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی ٹامس نکلاسن نے ٹوئٹر پر رواں ماہ کے آغاز میں اپنے دورے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ افغانستان کو سخت موسمِ سرما کا سامنا ہے۔
انہوں نے چین، روس اور اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) پر زور دیا تھا کہ وہ برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین سمیت دیگر ممالک کی طرح انسانی امداد کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
افغانستان کا شمار پہلے ہی دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا تھا لیکن امریکہ کے انخلا کے بعد عملی طور پر قائم ہونے والی طالبان حکومت پرعائد بین لاقوامی پابندیوں کی وجہ سے حالات مزید سنگین ہوگئے ہیں۔
صورتِ حال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تقریباً افغانستان کی پوری آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔
افغانستان میں کام کرنے والی نارویجن ریفوجی کونسل کے ڈائریکٹر نیل ٹرنر کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس یوکرین کے لیے امداد کی اپیل کو مغربی ممالک کی جانب سے بہت توجہ ملی تھی اور ان میں باقاعدہ عطیات کے لیے مسابقت دیکھی گئی تھی۔ تاہم افغانستان سے متعلق خدشہ ہے کہ مستقبل میں یہاں جنم لینے والے بحران کو نظر انداز کردیا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے سعودی عرب نے یوکرین کے لیے 40 کروڑ ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ امدادی اداروں نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا تھا۔ دوسری جانب رواں برس تیل سے مالا مال اس مسلم ملک نے افغانستان کے لیے ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا تھا۔
اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات، قطر اور ترکی جیسے نسبتاً امیر مسلم ممالک بھی افغانستان کے لیے امداد فراہم کرنے والوں کی فہرست سے یا تو غائب ہیں یا بہت پیچھے ہیں۔
رواں برس متحدہ عرب امارات نے اقوام متحدہ کی جانب سے 23 ممالک کے لیے امداد کی اپیل میں مجموعی طور پر 30 کروڑ ڈالر سے زائد کا فنڈ دیا ہے۔ اس میں سے 17 کرورڑ سے زائد افریقی ملک ایتھوپیا کو دیے گئے جب کہ افغانستان کے لیے صرف 19 لاکھ ڈالر جاری کیے تھے۔
قطر دنیا میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی والے ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن اقوام متحدہ کی اپیل کے جواب میں اس نے صرف دس 10 لاکھ ڈالر جاری کیے ہیں جس میں پانچ لاکھ کیمرون کے لیے تھے۔
گزشتہ برس دسمبر میں اسلام آباد میں ہونے والے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اففانستان کی امداد کے لیے اسلامی ترقیاتی بینک میں ایک فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
رواں برس اگست میں اسلامی ترقیاتی بینک نے ریڈ کراس اور ہلال احمر سوسائٹی کو افغانستان میں امدادی سرگرمیوں کے لیے سوا پانچ لاکھ ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔
او آئی سی اور اسلامی ترقیاتی بینک کے ترجمانوں نے اگست کے بعد مزید فنڈنگ سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے سعودی عرب اور یو اے ای کے سفارت خانے کو اس معاملے سے متعلق کی گئی ای میلز اور فون کالز کا کوئی جواب موصول نہیں ہو ہے۔
عطیات دینے والے ممالک کے مفادات
جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے وابستہ بین الاقوامی امور کی ماہر مریم زیڈ ڈیلوفر کا کہنا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امداد کی اکثر اپیلوں میں بہت کم فنڈنگ ہورہی ہے۔
یوکرین کے لیے 4.29 ارب ڈالر کی اپیل کی گئی تھی جس کا 68 فی صد جمع ہوچکا ہے۔ جب کہ افغانستان کے لیے 20 کروڑ فنڈ کی اپیل کی گئی تھی جس میں سے صرف 55 فی صد فنڈز ہی مل سکے ہیں۔ لیکن اس فنڈنگ میں مسلم ممالک کا کوئی بڑا حصہ شامل نہیں ہے۔
مریم ڈٰیلوفر کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد سعودی عرب نے طالبان سے قطع تعلق کرلیا تھا اور ان پر اسلام کو بدنام کرنے اور دہشت گردی کو فروغ دینے جیسے الزامات بھی عائد کرچکا ہے۔ ان کے بقول، اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ اور امریکہ کی پابندیوں اور قوانین وغیرہ سے متعلق تحفظات بھی اس کے پیشِ نظر رہے ہیں۔
امریکہ نے طالبان رہنماؤں پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں تاہم افغان عوام کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے رعایت دینے کی پیش کش بھی کی ہے۔
امریکہ اور دیگر چند ممالک نے افغانستان کے مرکزی بینک کے لگ بھگ نو ارب ڈالر منجمد کررکھے ہیں۔ ان کے نزدیک طالبان ممکنہ طور پر یہ وسائل دہشت گردی کی معاونت کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی فنڈنگ کے مسائل
اقوامِ متحدہ پر بھی تنقید کی جارہی ہے کہ اس نے ان شعبوں کی نشاندہی نہیں کی ہے جہاں سب سے زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔
ورلڈ پیس فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایلکس وال کا کہنا ہے اس وقت افغانستان میں امداد کا ایسا نظام کام کررہا ہے جیسے مسجد کے باہر گدا گر قطار میں کھڑے ہوتے ہیں اور باہر آنے والے نمازی جسے بہتر سمجھتے ہیں اسے چند سکے دے دیتے ہیں۔
ایلکس وال کے مطابق اقوامِ متحدہ کو عام طور پر مغربی ڈونرز ہی سے عطیات ملتے ہیں جب کہ مسلم ممالک اپنے خاص مقاصد کے تحت ہی ایسا کرتے ہیں۔
SEE ALSO: افغانستان میں طالبان نے نئے کرنسی نوٹوں کی تقسیم شروع کر دیاقوامِ متحدہ پر تنقید
اقوامِ متحدہ کی اپیل پر فنڈنگ میں صرف مسلم ممالک ہی عدم دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ سلامتی کونسل کے دو مستقبل ارکان روس اور چین بھی امداد کی فراہمی اور تقسیم کے انتظامات پر تنقید کرتے آئے ہیں۔
مریم ڈٰیلوفر کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق تاثر پایا جاتا ہے کہ امداد سے زیادہ ان کی دل چسپی اپنی بقا میں ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کے کام کرنے کے طریقے پر بھی یہی تنقید کی جاتی ہے کہ عطیات میں ملنے والی رقم کا زیادہ بڑا حصہ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے عملے اور کنسلٹنٹس کی اجرتوں میں صرف ہوجاتی ہے اور اس کا کم حصہ مقامی معیشت میں شامل ہوپاتا ہے۔
مستقبل کے خدشات
تقریباً دو دہائیوں سے افغانستان میں تعمیر و ترقی اور امدادی سرگرمیوں کے لیے امریکہ اور یورپی ممالک مالی وسائل فراہم کررہے ہیں۔
نارویجن ریفوجی کونسل کے نیل ٹرنر کا کہنا ہے کہ یوکرین میں جاری جنگ اور دنیا کے دیگر خطوں میں پیدا ہونے والے بحرانوں کے باعث خدشہ ہے کہ مستقبل میں ڈونرز کی دل چسپی افغانستان میں کم ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ کئی ترقی یافتہ ممالک خود بھی معاشی بحران کا سامنا کررہے ہیں۔
دنیا میں مسلمانوں کی آبادی 1.8 ارب سے زائد ہے۔ ان میں افغانستان کے علاوہ یمن، شام اور صومالیہ سمیت کئی مسلم اکثریتی علاقوں میں تنازعات اور قدرتی آفات کے باعث کئی بحران ہیں جن میں فوری امداد کی ضرورت ہے۔
SEE ALSO: افغانستان میں صدیوں سے مقیم سکھ برادری بھارت کا رخ کر رہی ہےنیویارک یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر جینس رڈبیک کے مطابق اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی تنظیمیں مغرب میں ان ممالک کے مقابلے میں زیادہ مؤثر انداز میں عطیات جمع کرلیتی ہیں جہاں سول سوسائٹی پر ریاست کا کنٹرول بہت زیادہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں تنظمیوں کے ڈھانچے موجود ہونے کی وجہ سے یہاں لوگوں کے لیے براہِ راست انہیں مدد دینا آسان ہوتا ہے۔
پروفیسر جینس رڈبیک کے بقول، اگرچہ بعض اسلامی ریلیف تنظیمیں موجود ہیں لیکن ان کے فنڈز اور انفرااسٹرکچرمحدود ہیں۔
افغانستان میں مطلوبہ فنڈنگ فراہم نہ ہونے سے وہاں پیدا ہونے والے بحران میں مزید شدت آئے گی۔ بعض افغان مبینہ طور پر اپنے اعضا اور بچوں تک کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔