|
امریکہ بھر میں مسلمان جہاں رمضان کے مہینے میں روزے اور عبادات کا اہتمام کرتے ہیں وہیں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان خیراتی اداروں کو دل کھول کر عطیات دے رہے ہیں جو غزہ اور دور دراز مقامات پر ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔
ان افراد کی عطیات کا بڑا حصہ امریکہ میں ہی خرچ ہوتا ہے اور اس سے غربت سے لڑنے اور صحت کی دیکھ بھال کو بہتر بنانے جیسے کاموں میں مدد کی جاتی ہے۔
انڈیانا یونیورسٹی میں "مسلم فلانتھراپی انیشی ایٹو " کے ڈائریکٹر شارق صدیقی کہتے ہیں "امریکی مسلمانوں کے بارے میں لوگوں میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ وہ اپنا سارا پیسہ بیرونِ ملک بھیج دیتے ہیں۔"
شارق کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں مقیم مسلمان ہر سال چار ارب 30 کروڑ ڈالر کی امداد دیتے ہیں اور اس رقم کا 85 فی صد حصہ امریکہ میں ہی صرف ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ امدادی رقم کا 50 فی صد مسلمانوں کے زیرِ انتظام تنظیموں جب کہ تقریباً 40 فی صد غیر مسلم گروہوں کو جاتا ہے۔
ایک انٹرویو کے دوران شارق نے کہا کہ ان کے خیال میں لوگوں کو یہ چیز حیران کرتی ہے کہ دیگر امریکیوں کی طرح امریکی مسلمان بھی دیگر مذاہب کے لوگوں کی طرح ایک جیسی وجوہات کی بنا پر ہی رقم دیتے ہیں۔
فراخدلی
امریکہ میں تقریباً 35 لاکھ مسلمان ہیں جو ملک کی آبادی کا تقریباً ایک اعشاریہ ایک فی صد ہیں۔
شارق صدیقی کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں مسلمان غیر مسلموں کے مقابلے میں عقیدے اور غیر عقیدے دونوں وجوہات پر زیادہ رقم دیتے ہیں۔ اسی طرح وہ مقامی فوڈ بینکس اور بے گھر لوگوں کی پناہ کے لیے "ہوم لیس شیلٹرز " سے لے کر اسپتالوں اور یونیورسٹیوں کے معاملات میں بھی بڑے پیمانے پر حمایت کرتے ہیں۔
"امریکن مسلم کمیونٹی فاؤنڈیشن" کے شریک بانی محی خواجہ کہتے ہیں کہ مسلمان بہت سے طریقوں سے معاشرے کی خدمت کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ کے اسکولوں میں مسلم طلبہ کے لیے رمضان میں کیا انتظامات ہوتے ہیں؟رمضان میں مسلمانوں کی فراخدلی عروج پر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ رمضان کے روزے اور زکوۃ ہیں۔ روزے اور زکوۃ اسلام کے پانچ ستونوں میں شامل ہیں۔ اگرچہ زکوۃ دینے کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں۔ لیکن اکثر مسلمانوں کا ماننا ہے کہ چوں کہ رمضان ایک خاص مذہبی اہمیت رکھتا ہے تو اس مہینے کے دوران دی گئی زکوۃ یا عطیات کے اجر کو اللہ کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ باقی دنیا کی طرح امریکہ میں بھی مسلمانوں میں رمضان کے دوران زکوۃ دینے کا رجحان پایا جاتا ہے۔
مسلم فلانتھراپی انیشی ایٹو کے مطابق ہر سال امریکی مسلمان اندازاً ایک ارب 80 کروڑ ڈالر کی زکوۃ دیتے ہیں جس میں زیادہ تر رمضان میں دیتے ہیں یا اس کا وعدہ کرتے ہیں۔
شارق صدیقی کہتے ہیں کہ "ہماری تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک رمضان میں عطیات، خاص طور پر زکوۃ دینے کے لیے کتنا اہم ہے۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے رابطہ کرنے پر کئی مسلم خیراتی اداروں نے تصدیق کی ہے کہ وہ رمضان کے دوران اپنی سالانہ آمدنی کا کم از کم نصف جمع کرتے ہیں۔
اس رمضان کے دوران امریکی مسلمانوں کی جانب سے غزہ کے لیے بھرپور امداد دی جا رہی ہے اور وہ رقم دینے میں غیر معمولی طور پر فراخدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ایک بڑی مسلم خیراتی تنظیم "اسلامک ریلیف یو ایس اے" کا کہنا ہے کہ انہوں نے 10 لاکھ سے زیادہ تیار شدہ کھانے کی میلز فراہم کی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
"مسلم ایڈ یو ایس اے" تنظیم کے سی ای او اظہر عزیز کے مطابق ان کی تنظیم بھی اب تک 10 لاکھ ڈالر سے زیادہ دے چکی ہے۔
اظہر عزیز نے انٹرویو میں کہا کہ "میں جانتا ہوں کہ ہر مسجد اور ہر اسکول رقم اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ رقم مسلم ایڈ یو ایس اے، اسلامک ریلیف جیسی معتبر خیراتی اداروں کو منتقل ہو رہی ہے جن کی (غزہ میں امدادی گروپس) کے ساتھ دیرینہ شراکت داری ہے اور وہ گراؤنڈ پر کام کر رہے ہیں۔"
غزہ کے تنازع پر عالمی ردِعمل نے ابتدائی طور پر مقامی غیر منافع بخش گروہوں میں ان خدشات کو جنم دیا تھا کہ اس سے ان کی فنڈنگ میں کمی آئے گی۔
لیکن "اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ" کے بھوک سے بچاو منصوبے کے ڈائریکٹر زاہد حسین کے بقول مقامی مسائل سے متعلق زیادہ فکر مند رہنے والے ڈونرز کی جانب سے عطیات دینے سے مقامی ادارے مشکل حالات سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ ملک کی فوری ضرورت کو سمجھنے کے معاملے میں کافی فراخدل تھے۔
اولین ترجیح
مسلم فلانتھراپی انیشی ایٹو کی مسلم امریکن چیریٹی پر تحقیق کے کچھ حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے خدشات کے باوجود امریکی مسلمانوں کے لیے شہری حقوق کے مسائل کی حمایت کرنا اولین ترجیح نہیں ہے۔
شارق صدیقی کے بقول مسلمانوں کی پہلی ترجیح ملکی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر غربت کا خاتمہ ہے۔
آئی سی این اے امریکہ کے سب سے پرانے مسلم امریکی خیراتی اداروں میں سے ایک ہے جو غربت کے خاتمے کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔
آئی سی این اے ریلیف یو ایس اے جہاں امریکہ میں مقامی معاملات کی طرف توجہ دے رہی ہے وہیں اس کی سسٹر آرگنائزیشن 'ہیلپنگ ہینڈ یو ایس اے' غزہ میں امداد پہنچا رہی ہے۔
امریکہ کی 42 ریاستوں میں کام کرنے والی یہ تنظیم کم آمدنی والوں کو مفت کھانے اور طبی سروسز فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ نئے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے آبادکاری کی سروسز بھی فراہم کرتی ہے۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ یہ گروپ ملک بھر کے خاندانوں میں "ذات، نسل، رنگ اور مذہب' سے قطع نظر مفت کھانے کے پیکج تقسیم کرتا ہے۔
SEE ALSO: وائٹ ہاؤس میں رمضان کی کسی تقریب میں شریک نہیں ہوں گے، امریکی مسلم گروپسگروپ کے چیف آپریٹنگ آفیسر عبد الرؤف خان کے مطابق گزشتہ برس کاؤنٹی کے اطراف تقریباً سات لاکھ افراد کو کھانا پہنچایا گیا جب کہ اس سال آٹھ سے نو لاکھ لوگوں کی خدمت کرنا مقصد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر جمع ہونے والے ڈالر کا 100 فی صد غریبوں کو کھانا کھلانے کے کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ مسلمان امریکیوں کا مقامی خیراتی اداروں کو عطیات دینا برسوں کے دوران بدلتے ہوئے رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ پہلی مرتبہ بھارت سے امریکہ آئے تو انہوں نے سوچا "امریکہ میں کوئی غریب نہیں ہے" اور انہوں نے بھارت میں مدد کی۔ لیکن آئی سی این اے کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرنے کے بعد محسوس کیا کہ اس ملک میں بھی لوگ "مشکلات اور بھوک" کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس احساس نے ہی بہت سے مسلمان امریکیوں کو مقامی کمیونٹی کی مدد کرنے کی طرف راغب کیا ہے۔
SEE ALSO: سیاہ فام امریکیوں کی فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی میں اضافہزاہد حسین کہتے ہیں کہ یقیناً ہمیں دوسروں کی مدد کرنی ہے۔ لیکن سب سے پہلے اپنے ملک پر توجہ دینی ہے۔ ہمیں یہیں دفن ہونا ہے، واپس اپنے ملک میں نہیں۔ یہ ہمارا ملک ہے۔
صرف آئی سی این اے ہی واحد مسلم خیراتی ادارہ نہیں جو مقامی مسائل میں مدد کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی مسلم امریکی خیراتی ادارے جیسے اسلامک ریلیف یو ایس اے اور مسلم ایڈ یو ایس اے بھی اپنی آمدنی کا ایک چھوٹا حصہ مقامی پروگرامز پر خرچ کرتے ہیں۔
مسلم ایڈ کے اظہر عزیز کہتے ہیں کہ نوجوان مسلمان امریکی پروفیشنلز مقامی مسائل کی طرف توجہ دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم یہاں (امریکہ میں) اللہ کی بے شمار رحمتوں اور نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ ہمارا اسلامی فرض ہے کہ ہم اس عظیم قوم میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں غربت، ضرورت اور بھوک ہے اور ہم اپنے ہی پڑوسیوں، بھائیوں اور بہنوں کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہتے ہیں۔