دہشت گردی پر آل پارٹیز کانفرنس میں تاخیر؛ 'سیاسی جماعتیں ساتھ بیٹھنے پر تیار نہیں'

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جامع پالیسی بنانے کے لیے مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں تاخیر پر سیاسی حلقے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کا مورال بلند رکھنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف دو ٹوک مؤقف ضروری ہے جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کو ڈھیل دینے کے بجائے سخت پالیسی اپنانا ہو گی۔

خیال رہے کہ جنوری میں پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں خود کش حملے میں 100 سے زائد افراد کی ہلاکت نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس حملے کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف نے سات فروری کو آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تھا۔

لیکن ترکیہ میں آنے والے ہولناک زلزلے کے باعث یہ ملتوی کر دی گئی تھی۔ اب ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اے پی سی اب بھی التوا کا شکار ہے۔

اس دوران پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی دو مرتبہ بلایا گیا، لیکن دہشت گردی جیسے اہم موضوع پر وہاں بھی بحث نہیں ہو سکی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ملک کو دہشت گردی کی نئی لہر کا سامنا ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد کی طرح قوم کو دہشت گردی کے خلاف متحد کیا جائے۔

پولیس لائنز واقعے کے بعد وزیر اعظم نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومتی رہنماؤں اور قانون ناٖفذ کرنے والے اداروں کے سربراہان پر مشتمل ایپکس کمیٹی کا پشاور میں اجلاس کیا۔ لیکن اس سلسلے میں اسلام آباد میں بلایا گیا دوسرا اجلاس بھی التوا کا شکار ہے۔

گز شتہ ماہ وزیر اعظم شہباز شریف سے جب استفسار کیا گیا کہ دہشت گردی پر آپ نے اے پی سی بلائی تھی وہ کیوں نہیں ہو پارہی کے جواب میں شہباز شریف نے کہا تھا کہ اے پی سی بھی ہوجائے گی۔

حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنما بھی اے پی سی میں تاخیر پر تشویش سے دوچار ہیں۔

وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی اور رہنما پیپلزپارٹی فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اے پی سی نہ ہونا تشویش کا باعث ہے۔


وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کے ساتھ فوری طور پر اے پی سی بلائی جانی چاہیے تاکہ انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی تیار کی جا سکے۔

پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر بھی کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام شراکت داروں میں قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔

ملک میں امن و امان کی صورتِ حال کو قائم کرنے کے لیے حکومتی پالیسیوں میں ابہام کیوں ہے؟ اس بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں اہم قومی معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں اور سیاسی بے یقینی نے امن و امان اور معاشی حالات کو سنگین کر دیا ہے۔

'سیکیورٹی اہلکاروں کا مورال بلند کرنا ضروری ہے'

فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے سابق کمانڈنٹ لیاقت علی کہتے ہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سیاسی قیادت کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور حکومت و سیاسی جماعتوں کو اپنی ذمے داریاں پوری کرنا ہوں گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں سے لڑنے والے سیکیورٹی اہلکاروں کا مورال بلند رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس معاملے میں سیاسی اتفاقِ رائے بھی ہو۔

اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو ڈھیل نہیں دی جانی چاہیے کیوں کہ جب حکومت ان کی جانب نرمی کرتی ہے تو انتہاپسند دوبارہ متحرک ہو جاتے ہیں۔

لیاقت علی نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف گزشتہ آپریشن اسی وقت کامیاب ہو سکا تھا جب نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا اور سیاسی قیادت قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ کھڑی تھی۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ایک مؤثر حکمت عملی ہے جس پر اگر مکمل عمل کیا جاتا تو دہشت گردوں کو دوبارہ فعال ہونے کا موقع نہ ملتا۔

SEE ALSO: شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں؛ نو مبینہ دہشت گرد ہلاک

تجزیہ نگار ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ دہشت گردی ایک بہٹ بڑا قومی مسئلہ ہے لیکن حکومت اس سے نمٹنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ہما بقائی کا کہنا تھا کہ اے پی سی میں تاخیر اپنی جگہ لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر تو اس پر بات ہونی چاہیے تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ سیاسی قیادت کی عدم دلچسپی اور سیاسی انتشار کے ماحول میں دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاقِ رائے کی کوئی صورت نظر نہیں آتیْ۔

ہما بقائی کہتی ہیں کہ بہرحال سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی بنیادی ذمے داری حکومت کی ہی ہے۔

خیال رہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں دہشت گردی کے 506 واقعات ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں سے زیادہ تر حملوں کی ذمے داری کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔