’’میں اس ملک میں پیدا ہوا۔ یہاں میں کماتا ہوں۔ پاکستان میری شناخت ہے۔ میری جڑیں اس ملک میں ہیں تو الیکشن کے دن میں اگر یہ سوچوں کہ میرے ووٹ دینے یا نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو یہ اس ملک کے ساتھ بد دیانتی ہو گی۔‘‘
یہ کہنا ہے 40 سالہ سید اویس کا، جو پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک نجی کمپنی میں مینیجر ہیں۔
ان کے بقول ’’میں چاہے کسی آزاد امیدوار کو ووٹ دے دوں۔ آزمائے ہوئے کو دوبارہ نہ آزماؤں۔ لیکن میں ووٹ ضرور دوں گا۔‘‘
پاکستان میں عام انتخابات آئندہ ماہ 8 فروری کو ہونے والے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ ریٹرننگ افسران نے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو قبول اور مسترد کرنے کا کام تیز کردیا ہے۔
بیلٹ پیپر پر کون سا امیدوار کس انتخابی نشان کے ساتھ موجود ہوگا اس کا فیصلہ جلد ہو جائے گا۔ اس کے لیے سیاس جماعتوں کے رہنما اور عوامی نمائندے اب سیاسی مہم میں تیزی بھی دکھا رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 12 کروڑ 86 لاکھ سے زائد پاکستانی ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ یعنی ملک کی آدھی آبادی اس الیکشن میں حق رائے دہی استعمال کرے گی۔
ان ووٹرز میں سے پانچ کروڑ 91 لاکھ نوجوان ہیں۔ اگر پچھلے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو 70 فی صد سے زائد نوجوان ووٹرز نے پولنگ اسٹیشن کا رخ نہیں کیا۔ کیونکہ ان میں سے بیشتر کا یہ خیال تھا کہ ان کے ووٹ سے کیا بدلے گا؟
اگر صرف ملک کے گنجان آباد شہر کراچی کی بات کی جائے تو حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری کے بعد ملک کے سب سے بڑے شہر کی آبادی دو کروڑ تین لاکھ ہے۔ اس شہر میں عوامی نمائندگی کے لیے قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلی کی 47 سیٹیں موجود ہیں۔
انتخابات جلد از جلد کرائے جائیں یہ مطالبہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے تو آ رہا تھا۔ لیکن اب جب الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے تو کیا عوام بھی ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں؟ وائس آف امریکہ نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان انتخابات میں عوام کیوں ووٹ دیں گے اور اگر وہ ووٹ نہیں دیں گے تو اس کی وجہ ہو سکتی ہے؟
یہ بھی جانیے
پاکستان میں کون الیکشن لڑ سکتا ہے اور اُمیدوار کو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟الیکشن 2024: مسلم لیگ (ن) کو سندھ میں اتحادیوں سے کیا توقعات ہیں؟’ شفاف الیکشن ہونا ضروری ہے‘؛ سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاری میں مصروفکیا عمران خان اور نواز شریف الیکشن لڑ سکیں گے؟کراچی کے شمال میں واقع ولاقے منگھو پیر کے مکین 30 سالہ جمیل احمد سیکیورٹی گارڈ ہیں۔
جمیل احمد کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ہی واحد جماعت ہے جو عوام کی حقیقی ترجمانی کرتی ہے۔ ہمارے علاقے میں کوئی بھی مسئلہ ہو، چاہے کونسلر ہو یا اس پارٹی کا نمائندہ، وہ ہمارے مسائل کے حل کے لیے موجود ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو جیسا لیڈر کوئی نہیں تھا۔ ان کے پورا خاندان نے بی بی کو ہمیشہ سے سپورٹ کیا وہ غریبوں کی لیڈر تھیں۔
ان کے بقول ’’ان کے قتل کے بعد مجھے اور میرے خاندان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اس ملک میں جمہوریت کے لیے اپنی جان دی۔ اس لیے ہمارا ووٹ ہمیشہ ان کی پارٹی کے لیے ہی رہے گا۔‘‘
رفیق علی لیاری میں رہتے ہیں۔ ان کی عمر لگ بھگ 36 سال ہے۔ ان کی اپنی دکان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا ووٹ جماعت اسلامی کے لیے ہوگا۔ کیوں کہ ان کے خاندان نے ہمیشہ سے اسی جماعت کو ووٹ دیا ہے۔ اس لیے کسی دوسری پارٹی کے بارے میں سوچنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
اریب حسن کی عمر 26 سالہ ہے اور وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق کراچی شہر سے پیپلز پارٹی کے علاوہ سب ہی مخلص ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے شہر میں گرین لائن بس کا منصوبہ بنایا۔ تحریک انصاف کے دور میں اس شہر میں آئی ٹی سیکٹر کا کچھ کام نظر آیا۔ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی نے اپنے وقت میں شہر کے اندر ترقیاتی کام کیے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے ہوتے ہوئے گزشتہ 10 سے 12 برس میں اس شہر کا جو حشر ہوا وہ دیکھ کر دل جلتا ہے۔
ان کے بقول ’’ان حالات میں میں سمجھتا ہوں کہ میں اس بار کسی کو ووٹ نہ دوں کیونکہ مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ صاف شفاف انتخابات ہو ہی نہیں سکتے جس طرح اس شہر میں بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے جو کچھ کیا تو کیا وہ عام انتخابات میں نہیں ہوگا؟‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف کراچی ہی نہیں پورے ملک میں کہیں بھی کوئی ایسی سیاسی قیادت دکھائی نہیں دے رہی جو اس ملک کے عوام سے مخلص ہو۔
اریب حسن کے مطابق فیصلہ ہو چکا ہے کہ کون آئے گا۔ یہ الیکشن سوائے ڈرامے کے کچھ بھی نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
شہر کے مرکز صدر کی رہائشی 28 سالہ کرسٹینا ایڈورڈ ایڈورٹائزنگ کمپنی میں کام کرتی ہیں۔
ان کے مطابق جو لوگ کل لاڈلے تھے آج وہ ولن ہیں، جو کل برے تھے وہ آج عدالتوں سے ریلیف لے رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اس ملک کے مخصوص ادارے اپنے مفاد کے لیے سیاست دانوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ کوئی ایسی پارٹی نہیں ہے جسے ووٹ دیا جائے۔‘‘
وہ احتجاج کا اشارہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ میرے نزدیک ووٹ نہ دینا ہی بائیکاٹ کا طریقہ ہے۔
زاہد خان کی عمر 46 برس ہے اور وہ ایک سرکاری ادارے میں گریڈ 19کے افسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ووٹ دینا میری قومی ذمہ داری ہے۔ اس لیے میں ووٹ دوں گا ۔ جمہوری تسلسل ایک دو الیکشن سے استحکام نہیں پکڑتا اس کا راستہ بہت لمبا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ چونکہ کوئی اہل شخص نہیں اس لیے وہ ووٹ نہیں دیں گے۔ میرا ماننا ہے کہ جو لوگ انتخابات لڑ رہے ہیں آپ یہ دیکھیں کہ ان میں سب سے کم نا اہل کون ہے اسے ووٹ دے کر بڑے نا اہل کو مسترد کر دیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ایک حلقے میں اگر پانچ لاکھ ووٹر ہے اور وہاں 50 ہزار ووٹ ڈالے گئے ہے جب کہ جیتنے والے امیدوار کو تیس ہزار ووٹ ملے ہیں۔ تو ساڑھے چار لاکھ آبادی جو ووٹ دینے نہیں نکلی، انہوں نے اس نا اہل آدمی کو ایوان میں پہنچانے کے لیے سہولت کاری ہی تو کی ہے۔
ان کے بقول ’’میں ووٹ لازمی دوں گا تاکہ وہ لوگ جو عوام کے کام نہیں آئے ان کے خلاف ووٹ دے کر انھیں مسترد کروں ۔‘‘
مریم لیاقت ڈاکٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے سرکاری اسپتالوں میں ہاؤس جاب کے دوران دیکھا ہے کہ مریضوں کو کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ان اسپتالوں میں کروڑوں روپے کی مشینیں تباہ ہو رہی ہیں۔ انھیں زنگ لگ رہا ہے۔ لیکن وہ مریضوں کے کام نہیں آ رہیں۔‘‘
ان کے مطابق پاکستان میں صحت کا شعبہ اس سیاست دانوں کی ترجیح نہیں رہا۔ 30 سالہ مریم کہتی ہیں کہ اگر یہ ان کی ترجیحات میں شامل ہوتا تو کوئی بھی مریض کوئٹہ، پشاور، صوابی سے طویل سفر طے کر کے اپنے پیاروں کو لے کر کراچی کے اسپتالوں کے باہر نہ بیٹھا ہوتا۔ جہاں پہلے سے ہی مریض زیادہ اور وسائل کم ہیں۔ اس لیے میں اپنا ووٹ کسی بھی سیاسی جماعت کو نہیں دوں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
مختار خان کی عمر لگ بھگ 56 سال ہے۔ وہ پاکستان کی فوج میں طویل خدمات انجام دے چکے ہیں اور کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ کرنل (ر) مختار خان کا کہنا ہے کہ ووٹ پانچ سال بعد ایک شہری کو ملنے والا وہ موقع ہے جس سے وہ بتا سکتا ہے کہ وہ اس ملک کا فیصلہ کرنے والوں سے کیا امیدیں رکھتا ہے۔
ان کے بقول ’’یہاں تنقید کرنا بہت آسان ہے۔ ہر شخص یہ کہتا ہے کہ فیصلے اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عوام کی طاقت ہی اتنی بڑی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے ادارے کو کچھ بھی غلط کرنے سے پہلے سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ اب پونے 13 کروڑ ووٹرز میں سے 3 سے 4 کروڑ ووٹرز ہی نکلے تو پولیٹیکل انجینئرنگ کیسے نہ ہو؟ کیوں کہ یہ سب کرنے والوں کو بھی نظر آرہا ہے کہ جب عوام ہی اپنی ذمہ داری ادا کرنے کو تیار نہیں، تو ان کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ سب تسلسل سے جاری نہ رہے، اسے روکا جائے، تو ووٹ دینے کے لیے نکلنا ہوگا۔ اگر ووٹ نہ دینے والوں کو لگتا ہے کہ کوئی بھی اس قابل نہیں تو اس کا حل یہ ہے کہ وہ کسی ایسے نمائندے کو ووٹ دے دیں جسے انہوں نے پہلے کبھی نہیں آزمایا۔
رامین شمس کی عمر 23 ہے۔ وہ یونیورسٹی کی طالبہ ہیں۔ ان کے مطابق جس ملک میں عوامی اداروں میں فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران تعینات ہوں اس ملک میں ایک عام آدمی کا ووٹ کیا معنی رکھتا ہے؟ سپارکو، نادرا اس کی مثال ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ملک میں 50 سے زائد تجارتی ادارے فوج چلا رہی ہے۔ وہاں الیکشن میں عام آدمی کے کیے جانے والے فیصلے قبول ہوں گے یا اس سیاسی جماعت کے، جس سے انہیں سہولت حاصل ہو؟ میرا ووٹ اس نظام کے لیے ہرگز نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اکتیس سالہ ایڈووکیٹ طاہر خان کے مطابق اس الیکشن میں پی ٹی آئی کا ووٹر اپنا غصہ نکالنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ اس کی وجہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ تو ہے ہی، لیکن دوسری وجہ پختونوں کا نالاں ہونا بھی ہے جو کراچی کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے۔
ان کے بقول گزشتہ انتخابات میں کراچی سے کامیاب ہونے والے ایم این ایز زیادہ تر پختون تھے جو پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑے۔ لیکن اب جب افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا تو اس کی آڑ میں پختونوں کو بھی تنگ کیا گیا۔ ان سے پوچھ گچھ ہوئی۔ انہیں ہراساں کیا گیا جس پر پیپلز پارٹی کا کوئی اسٹینڈ نظر نہیں آیا۔ اس رویے کے خلاف کراچی سے اب پیپلز پارٹی کا ووٹ بھی پی ٹی آئی کو چلا جائے گا۔
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اب صرف سندھی بولنے والے طبقے کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک نہیں ہے۔ جہاں تھوڑا بہت ووٹ بینک ہے وہ ایم کیو ایم کو مل جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر الیکشن میں مداخلت نہ ہوئی تو کراچی سے آنے والا نتیجہ سب کے لئے بہت بڑا سرپرائز ہوگا۔
محمد عظمت کاروبار کرتے ہیں۔ ان کی عمر 60 سے تجاوز ہو چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سسٹم میں موجود مسائل سے میں بھی بہت نالاں ہوں۔ لیکن مجھے یہ اطمینان ضرور ہے کہ میں نے ان لوگوں کو ووٹ نہیں دیا جو ان مسائل کے ذمہ دار رہے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ آپ پولنگ کے روز قطار میں لگتے ہیں تو اس روز آپ طاقت ور اور آپ سے ووٹ مانگنے والا کمزور ہوتا ہے۔ اس کی قسمت کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
ان کے بقول یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جو جیتا ہے وہ بھلے درست نمائندہ نہ ہو۔ لیکن اس کے حصے میں نہ آنے والے ووٹ اسے یہ بتاتے ہیں کہ اسے کچھ لوگوں نے کیوں مسترد کیا جو لوگ اس روز ووٹ نہیں ڈالتے انہیں پھر سسٹم سے شکایت کرنے کا بھی حق نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’میں ہمیشہ کی طرح ان انتخابات میں بھی میں ووٹ دینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
علی صدیقی کی عمر 32 برس ہے اور وہ کراچی کے ایک بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ویسے تو وہ متحدہ قوم موومنٹ (لندن) کے ووٹر رہے ہیں۔ وہ ایم کیو ایم پاکستان کو کبھی ووٹ نہیں دیں گے۔ اس لیے ان کے پاس اب آپشن پیپلز پارٹی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ ایم کیو ایم لندن اس جماعت کے بانی الطاف حسین کے ماتحت چلنے والا دھڑا ہے جب کہ ایم کیو ایم پاکستان ملک میں کام کرنے والی پارٹی ہے جس کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔
علی صدیقی اس بار کراچی میں ہونے والے ترقیاتی کاموں سے کچھ مطمئن ہیں۔ ان کے بقول جب سے پیپلز پارٹی نے مرتضیٰ وہاب کو میئر بنایا ہے تو کام ہوتا نظر آرہا ہے۔ بہت سی شاہراہیں جو کئی برس سے بری حالت میں تھیں اب بن گئی ہیں۔
ان کے مطابق ’’میں سمجھتا ہوں کہ ووٹ اسی کا ہے جو کچھ کر کے دکھائے۔ اس لیے اس بار میرا ووٹ پیپلز پارٹی کو ملے گا۔ کیونکہ بلاول خود نوجوان ہے تو مجھے لگتا ہے کہ ان کا ویژن دوسرے سیاسی رہنماؤں سے بہتر ہے۔‘‘
رحیم احمد کی عمر 60 برس ہے اور وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں ہمیشہ سے ہی الطاف حسین اور ان کے نظریات کا حامی رہا ہوں اور میری خواہش ہے کہ ایم کیو ایم لندن کو ان انتخابات میں کھل کر مقابلہ کرنے کی اجازت ہو۔‘‘
ان کے بقول میں ایم کیو ایم کو ہی ووٹ دوں گا۔ کیونکہ سندھ خصوصاََ کراچی کی یہ سب سے بڑی نمائندہ جماعت ہے۔ سب سے زیادہ اس شہر کے مسائل کو یہ پارٹی سمجھتی ہے۔ الطاف حسین پر لگنے والی پابندی کے بعد جو ایم کیو ایم پاکستان اب نظر آ رہی ہے وہ سوائے اپنے فائدے کے کچھ نہیں کر رہی ۔ اگر ایم کیو ایم لندن کا کوئی نمائندہ الیکشن میں کھڑا ہوتا ہے تو میرا ووٹ اسی کے لیے ہوگا۔
پچاس سالہ عائشہ اشتیاق خاتونِ خانہ ہیں۔ ان کے بقول وہ جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گی۔ جماعت اسلامی ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت متوسط طبقے کی جماعت ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں پر کرپشن کے کیسز نہیں۔ ان کے نمائندے عوامی ہوتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون ہیں۔ ان تک رسائی آسان ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب کراچی کے میئر نعمت اللہ خان تھے تو شہر کا نقشہ بدل گیا تھا۔ ابھی بھی جہاں جہاں بلدیاتی نمائندے جماعتِ اسلامی کے ہیں وہاں کام ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
ان کے بقول ’’مجھے لگتا ہے کہ اس وقت ووٹ دینے کے لیے جماعتِ اسلامی سے بہتر کوئی نہیں ہے۔‘‘
38 سالہ عمارہ کے مطابق یہاں ہر آدمی اپنی زبان کی پارٹی کی حمایت کر رہا ہے اس لحاظ سے میرا ووٹ ایم کیو ایم (پاکستان) کے لیے ہوگا۔
ان کے مطابق گزشتہ انتخابات میں اردو بولنے والوں کو غداری کا لیبل لگا کر جس طرح ڈرامائی انداز سے باہر کیا گیا وہی سب کچھ اب تحریکِ انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے جو ثبوت ہے کہ جو آواز اٹھائے گا اس کا انجام ایسا ہی ہو گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’’میرا ووٹ ان کے ساتھ ہے جو اس کراچی کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرنے کا حق اور سمجھ دونوں رکھتے ہوں۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
حرا زمان کی عمر 27 برس ہے اور وہ آئی ٹی سیکٹر سے وابستہ ہیں۔
ان کے مطابق کراچی سے پی ٹی آئی نے پچھلے انتخابات میں 14 قومی اسمبلی کی نشستیں نکال کر یہ ثابت کردیا تھا کہ کراچی کے عوام پرانے چہروں اور نعروں سے تنگ آچکے تھے۔ لیکن اس ملک کی سیاسی جماعتیں اور دیگر ادارے پی ٹی آئی کی مقبولیت سے کتنے خوف زدہ تھے اس کا انجام ہمیں نظر آیا۔
ان کے بقول ’’اب اس الیکشن میں ایک بار پھر موقع ملے گا کہ میں اور مجھ جیسے بہت سے لوگ دوبارہ انہیں بتائیں کہ ہمیں سوائے تحریکِ انصاف کے کوئی قبول نہیں ہے۔‘‘
واضح رہے کہ گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق 2018 میں ملک بھر میں ووٹنگ کی شرح 51 فی صد رہی تھی جب کہ 2013 کے انتخابات میں یہ ووٹنگ شرح 55 فی صد تھی۔
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انتخابات کے روز رجسٹرڈ ووٹرز میں سے نصف تعداد نے ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اب دیکھنا یہ ہے کہ 2024 کے انتخابات میں کتنے ووٹرز گھروں سے نکل کر نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔