پاکستان کی دینی و سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام(ف) نے 27 اکتوبر کو اسلام آباد میں حکومت مخالف احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے اس احتجاج کے حوالے سے جہاں اپوزیشن جماعتیں شش و پنج کا شکار ہیں تو وہیں اس دھرنے میں مذہب کے استعمال کے معاملے پر جمعیت علماء اسلام کو مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام نے 2018 کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ ان انتخابات میں ایم ایم اے کو قومی اسمبلی کی 16 نشستیں ملیں تھیں۔ تاہم مولانا فضل الرحمن نے ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔
پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے حالیہ دھرنے
پاکستان کی حالیہ تاریخ میں بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی دو جماعتوں نے اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے دیے تھے۔ 2013 اور 2014 میں ڈاکٹر طاہر القادری کی سربراہی میں پاکستان عوامی تحریک نے اسلام آباد میں دھرنے دیے۔ جب کہ تحریک لبیک پاکستان اپنے سربراہ خادم حسین رضوی کی قیادت میں دھرنے دے چکی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مولانا فضل الرحمن دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور حالیہ تاریخ میں دیو بند مکتبہ فکر کا دارالحکومت اسلام آباد میں پہلا دھرنا ہو گا۔
جمیعت علماء اسلام کے رہنما حافظ حمد اللہ کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت پر مذہب کارڈ استعمال کرنے کا الزام وہ لگا رہے ہیں جنہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کے مدرسے کے بچوں کو اپنے دھرنے کے لیے استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم پر مذہب کارڈ کے استعمال کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن خود موجودہ وزیر اعظم ملک کو مدینہ کی ریاست بنانے کے دعوے کر کے مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مخالف علما کو ہمارے خلاف اکسایا جا رہا ہے کیا یہ مذہب کارڈ کا استعمال نہیں ہے؟
خیال رہے کہ 2014 میں موجودہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا۔ جس میں عوامی تحریک کے زیر انتظام چلنے والے متعدد تعلیمی اداروں کے طلبا اور اساتذہ بھی شامل تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ حمداللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ہر شہری کو احتجاج کا حق ہے۔ خواہ اس تعلق کسی یونیورسی سے ہو یا کالج اور یا کسی مدرسے سے ہو۔
کیا مدارس سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں؟
وفاق المدارس العربیہ کے سیکریٹری جنرل قاری محمد حنیف جالندھری کا کہنا ہے کہ مدارس میں زیر تعلیم بچوں کا اصل مقصد علم کا حصول ہے۔ لہذٰا ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بچوں کی ساری توجہ اسی جانب مبذول رہنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی مہتمم کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ڈنڈے کے زور پر مدارس کے طلبا کو مجبور کرے کہ وہ کسی بھی سیاسی احتجاج میں شامل ہوں۔
پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں 24 سے 25 ہزار مدارس موجود ہیں۔ جن میں سے 17 سے 18 ہزار مدارس دیوبند مسلک سے وابستہ ہیں اور یہاں لاکھوں طلبا زیر تعلیم ہیں۔
طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے زیر اثر مدارس کے طلبا تو احتجاج میں شریک ہو سکتے ہیں۔ لیکن بظاہر ایسا دکھائی نہیں دیتا کے دیوبند مسلک کے دیگر مدارس بھی اس احتجاج کا حصہ بنیں گے۔
سینئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے بھی ماضی میں اپنے مقاصد کے لیے مذہب کو استعمال کیا ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتوں میں فرقہ ورانہ تعصب بھی پایا جاتا ہے۔