فخرالدین جی ابراہیم کون تھے؟

فائل

معروف قانون دان، آئینی ماہر اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم پاکستان کے ان ناموں میں سر فہرست رہیں گے جو آئین، قانون اور سویلین بالادستی کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہے۔

وہ ان ناموں میں سر فہرست رہے جنہوں نے بطور جج فوجی آمروں کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہوئے آئین کے برخلاف حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ منگل کے روز کراچی میں وہ 91 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

1928 میں بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں پیدا ہونے والے فخرالدین جی ابرہیم نے ابتدائی تعلیم سے لیکر قانون کی تعلیم بھی بھارت ہی میں حاصل کی، جس کے بعد وہ اور ان کا خاندان 1950 میں ہجرت کرکے پاکستان آگیا، جہاں انہوں نے سندھ مسلم کالج کراچی سے ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی۔ اور پھر اپنی وکالت کا آغاز کیا۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں انہیں ملک کا اٹارنی جنرل بنا دیا گیا۔

فخرالدین جی ابراہیم 1981 میں سپریم کورٹ کے جج تھے جب فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی جانب سے جاری کردہ عبوری آئینی حکم کے تحت انہوں نے چیف جسٹس شیخ انوارالحق اور جسٹس دراب پٹیل کے ہمراہ دوبارہ حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ 1989 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران انہیں گورنر سندھ بنا دیا گیا۔ لیکن، صدر غلام اسحاق خان کی جانب سےآئین کی شق 58 ٹو بی کے تحت حکومت کو فارغ کرنے پر فخر الدین جی ابراہیم بھی اپنے عہدے سے خود ہی مستعفی ہوگئے۔

بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں انہیں ایک بار پھر اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ لیکن پھر حکومت سے مبینہ اختلافات کے باعث جلد ہی استعفیٰ دے دیا۔ فخرو بھائی کے نام سے مشہور فخرالدین جی ابراہیم پیپلز پارٹی کو دوسری بار فارغ کرنے کے بعد قائم کی گئی نگراں حکومت میں وفاقی وزیر قانون کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

فخرالدین جی ابراہیم کی قانونی فراست، اصول پرستی اور غیرجانبداری کے باعث وہ واحد شخص تھے جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے 2103 کے عام انتخابات سے قبل چیف الیکشن کمشنر کے نام پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن، عام انتخابات کے بعد ان پر تحریک انصاف کی جانب سے سخت تنقید کی گئی اور الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے عام انتخابات میں دھاندلی کرائی جس کے نتیجےمیں مسلم لیگ ن کی حکومت انتخابات میں کامیاب قرار پائی۔ تاہم، جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے عام انتخابات کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور اس کے بعد سے وہ تقریباً ہر قسم کی سرگرمیوں اور میڈیا سے دور ہی رہے۔ حتیٰ کہ اپنے اوپر عائد کئے گئے سنگین الزامات کا کبھی جواب دینا بھی پسند نہ کیا۔

سابق جج سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کو قریب سے دیکھنے والے جسٹس ریٹائرڈ قاضی خالد کا کہنا ہے کہ فخرو بھائی ایک بے لوث شخصیت کے بے داغ کیرئیر کے حامل انسان تھے جنہوں نے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ بطور گورنر بھی وہ سندھ مسلم لاء کالج میں آکر قانون کے طلبہ کو باقاعدگی سے لیکچر دیتے تھے اور اس دوران انہوں نے خصوصی تاکید کر رکھی تھی کہ ان کے پروٹوکول سے طلبہ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سادہ طبعیت اور سچائی کے علمبردار شخصیت کے مالک تھے۔

بوہری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے فخرالدین جی ابراہیم نے گورنر سندھ کے طور پر مختصر دور میں پولیس اور شہریوں کے درمیان ہم آہنگی کے لئے سیٹیزن پولیس لیزن کمیٹی قائم کی جو بعد میں ایک مضبوط ادارہ بنا اور آج بھی صوبے بھر بالخصوص کراچی میں جرائم کی بیخ کنی کے لئے بہترین کام سر انجام دے رہا ہے۔

لیکن فخرالدین جی ابراہیم کی زندگی کا ایک اور پہلو ان کی پر امن اور جمہوری جدوجہد بھی تھا۔ وہ انسانی حقوق، آزادی اظہار رائے اور عدلیہ کی آزادی کے ہمیشہ سے داعی رہے اور اس کے لئے وہ عملی طور پر بھی سرگرم نظر آئے۔ مارچ 2007 میں جب سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے سابق چیف جسٹس افتخار چورہدری کو عہدے سے معزول کیا جس کے نتیجے میں شروع ہونے والی وکلا تحریک میں وہ سڑکوں پر احتجاج کرتے وکلا کے ساتھ نظر آئے۔

وہ اکثر اداروں کے درمیان مصالحت کی بات کرتے تھے اور یہ بات کہتے دکھائی دیے کہ تمام اداروں بشمول عدلیہ اور فوج سے ماضی میں غلطیاں ہوتی رہی ہیں، ان غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ان سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔

اسی طرح جب تحریک انصاف کی حکومت نے سپریم کورٹ کے موجودہ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس فائل کیا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز انکے بیٹے زاہد ابراہیم نے بھی اپنے عہدے سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔

فخرالدین جی ابراہیم کی خدمات پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی دو بار حاصل کیں اور ان سے سابق ٹیسٹ کرکٹر سلیم ملک کے خلاف میچ فکسنگ، شعیب اختر اور محمد آصف کے خلاف ڈوپ ٹیسٹ مثبت آنے پر دائر مختلف اپیلوں کی سماعت بھی کی جس میں انہوں نے تمام کرکٹرز کو بری الذمہ قرار دیا۔