کرونا وائرس کے آغاز کی تحقیقات: عالمی ماہرین کی چینی سائنس دانوں سے ملاقات

تحقیقاتی ٹیم کا چین میں مزید دو ہفتوں کا قیام متوقع ہے جس کے دوران ماہرین چین کی جنگلی حیات کی مارکیٹ کا دورہ کرے گی۔

عالمی ادارۂ صحت کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم کرونا وائرس کے آغاز کی تحقیقات کے سلسلے میں چین کے شہر ووہان میں موجود ہے۔ تحقیقاتی ٹیم نے جمعے کو چین کے سائنس دانوں سے ملاقات کی ہے۔

اس ملاقات میں کرونا وائرس کی ابتدا اور اس کے پھیلاؤ سمیت دیگر امور پر بات چیت کی گئی۔

تحقیقاتی ٹیم میں شامل نیدر لینڈز سے تعلق رکھنے والی وبائی امراض کی ماہر میریون کوپمینس نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ "یہ پہلا موقع ہے جب ہم نے اپنے چینی ساتھیوں کے ساتھ براہِ راست ملاقات کی اور اس دوران چین آمد کے پروگرام پر بات چیت ہوئی۔"

میریون کے بقول چین کی جانب سے ٹیم کی قیادت کرنے والے پروفیسر وینین بعض تیکنیکی خامیوں پر مذاق اڑا رہے ہیں۔ تاہم اپنے ساتھیوں کو دیکھ کر اچھا لگا۔

چین میں موجود عالمی ادارۂ صحت کی تحقیقاتی ٹیم نے جمعرات کو دو ہفتوں کا قرنطینہ مکمل کیا ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کا چین میں مزید دو ہفتے قیام متوقع ہے جس کے دوران ماہرین چین کی جنگلی حیات کی مارکیٹ کا بھی دورہ کریں گے۔ اس مارکیٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کرونا وائرس نے یہاں جنم لیا جس کے بعد یہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔

عالمی ادارۂ صحت کی ٹیم ووہان کے 'انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی' کا بھی دورہ کرے گی۔ اس حکومتی لیبارٹری کے حوالے سے بھی قیاس آرائیاں کی گئی تھیں کہ یہ لیب کرونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ بنی۔ تاہم چین کی حکومت اس کی تردید کرتی آئی ہے۔

تحقیقاتی ٹیم میں شامل ڈنمارک سے تعلق رکھنے والی ماہر تھی فشر کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے آغاز کا کھوج لگانے اور اس مشن کی کامیابی کا انحصار متعلقہ ذرائع تک 100 فی صد رسائی کے بعد ہی ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کتنے اہل ہیں، ہم نے کتنی لگن سے کام کیا اور ہم کتنا مشکل کام کر رہے ہیں۔ بلکہ کرونا وائرس کے آغاز کے بارے میں حقیقی علم تب ہو گا جب ہمیں چین کی طرف سے مکمل اعانت حاصل ہو گی۔"

SEE ALSO: کرونا وائرس کی ابتدا کیسے ہوئی، اس راز سے پردہ کب اٹھے گا؟

یاد رہے کہ کرونا وائرس کے آغاز سے متعلق حقیقی معلومات حاصل کرنا اب سیاسی مسئلہ بھی بن چکا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ماہرین کی ٹیم کو تحقیقات کے لیے رواں ماہ کے آغاز میں چین پہنچنا تھا تاہم بیجنگ حکومت نے دورے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔

چین کا مؤقف ہے کہ ووہان میں کرونا وائرس کی دریافت سے قبل یہ وائرس بیرونِ ملک موجود تھا۔

چین کے سرکاری میڈیا کا دعویٰ ہے کہ ووہان سے قبل کرونا وائرس یورپ میں 2019 کے دوران موجود تھا جو یورپ سے درآمد کردہ کھانے کے پیکٹس کے ذریعے ووہان پہنچا۔

Your browser doesn’t support HTML5

ووہان میں زندگی بحال، 'اب کوئی خوف نہیں ہے'

چین کی وزارتِ خارجہ نے بھی الزام عائد کیا تھا کہ امریکی ریاست میری لینڈ میں جولائی 2019 میں امریکی فوج کے زیرِ انتظام چلنے والی لیبارٹری کو اچانک بند کیا گیا تھا جو کہ عالمی وبا کے پھیلنے کا باعث بنی۔

دوسری جانب امریکہ کی جانب سے بھی چین کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھیرایا جاتا رہا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار کرونا وائرس کو 'چین کا وائرس' قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ چین کرونا وائرس کے آغاز کے بارے میں شواہد چھپا رہا ہے۔