عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ افریقہ کے ملک کانگو میں پھیلنے والی ایبولا وائرس کی وبا تاحال باقی دنیا کے لیے خطرہ نہیں اور فی الحال دنیا میں اس وبا سے بچاؤ کے لیے ہنگامی حالت کے نفاذ کی ضرورت نہیں ہے۔
عالمی ادارے کی جانب سے یہ سفارش 13 ماہرینِ طب پر مشتمل ایک آزاد کمیٹی نے کی ہے جس نے جمعے کو جنیوا میں ہونے والے اجلاس میں کانگو کی صورتِ حال پر غور کیا۔
اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فی الحال ایبولا کی یہ وبا گلوبل ایمرجنسی نہیں اور اس وبا کی سنگینی صرف عوامی جمہوریہ کانگو تک ہی محدود ہے۔
بیان کے مطابق ایبولا کی اس وبا سے کانگو کے پڑوسی ممالک متاثر ہو سکتے ہیں اور انھیں اس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات اور مریضوں کی شناخت اور انھیں باقی لوگوں سے الگ کرنے کے اقدامات کرنا چاہیئں۔
تاہم پینل کے مطابق فی الحال عالمی سطح پر وارننگ جاری کرنا مناسب نہیں کیوں کہ اس کے نتیجے میں معاشی اور سفری پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں جس کے باعث کانگو کی معیشت کو سخت نقصان اٹھانا پڑے گا۔
کانگو میں پھیلنے والی ایبولا کی حالیہ وبا سے گزشتہ سال اگست سے اب تک 2100 سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ان میں 1411 افراد اب تک موت کا شکار ہوئے ہیں۔
رواں ہفتے کانگو کے پڑوسی ملک یوگنڈا میں بھی تین افراد میں ایبولا کی تصدیق ہوئی تھی جن میں سے دو بعد ازاں چل بسے تھے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ یہ تینوں افراد کانگو سے یوگنڈا پہنچے تھے۔
یوگنڈا کے حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے ان تین افراد سے رابطے میں آنے والے 98 افراد کا تعین کر لیا ہے جنھیں انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا ہے۔
کانگو میں وائرس کی وبائی صورت اختیار کرنے کے باعث کئی بین الاقوامی تنظیمیں عالمی ادارۂ صحت سے بین الاقوامی طور پر ہنگامی حالت کے نفاذ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
بین الاقوامی اداروں کا موقف ہے کہ ایمرجنسی کے نفاذ کی صورت میں دنیا بھر میں حکومتوں کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرانے میں مدد ملے گی اور ان پر ایبولا سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات کرنے اور اس کے لیے وسائل مختص کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔
افریقہ میں ایبولا وائرس کی یہ دوسری وبا ہے۔ اس سے قبل 2014ء سے 2016ء کے دوران مغربی افریقی ممالک میں اس وائرس سے 11 ہزار سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
ایبولا کا وائرس دنیا میں موجود چند خطرناک ترین متعدی بیماریوں میں سے ایک ہے جسے 'ہیموریج فیورز' (گردن توڑ بخار) کی ایک قسم بتایا جاتا ہے۔
ایبولا سے مرنے والے افراد کی لاشیں بھی مرض کو پھیلانے کا سبب بنتی ہیں جس کے باعث ان میتوں کی تدفین صرف حفاظتی لباس پہنے ہوئے امدادی اہلکار ہی کرتے ہیں۔