اقوام متحدہ کے نیویارک صدر دفتر میں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ترجمان سٹیفن ڈی جورک نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں ’ کلیرئیٹی‘ یعنی واضح صورتحال جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ میں افغانستان کی نمائندگی کون کر رہا ہے اور یہ کہ موجود مشن کا سٹیٹس کیا ہے۔
عالمی ادارے میں یہ سوالات ایسے وقت میں اٹھائے جا رہے ہیں جب گزشتہ سال اگست میں طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد معزول حکومت کے مستقل مندوب غلام ایم اساکزئی نے استعفی دے دیا تھا اور اس کے بعد مشن میں نمبر دو اور نمبر تین پوزیشن پر موجود عہدیداروں کے چارج ڈی افئیرز بنائے جانے کے معاملے پر تنازعہ سامنے آیا ہے۔
اقوام متحدہ میں افغانستان کے مستقل مشن نے بدھ کے روز ایک بیان میں بتایا تھا کہ مشن کے نائب مندوب محمد ولی نعیمی کو چارج ڈی افیر زبنا دیا گیا ہے نہ کہ نصیر احمد فائق کو جنہوں نے سابق سفیر اور افغانستان کے مستقل مندوب غلام محمد اساکزئی کے استعفی کے بعد یہ عہدہ سنبھال لیا تھا۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق مشن نے یہ بھی بتایا ہے کہ افغانستان کی سابق معزول حکومت کے وزیرخارجہ حنیف اتمر نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو ایک خط کے ذریعے اس معاملے سے پہلے ہی آگاہ کر رکھا ہے۔
ایک روز قبل نصیر فائق نے کہا تھا کہ حنیف اتمر کا خط غیر قانونی ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سابق حکومت یا اس کے کسی نمائندے سے احکامات لیتے ہیں اور نہ ہی ان کی نمائندگی کرتے ہیں۔
افغانسان کے نیوز چینل طلوع کے مطابق، سابق افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر نے خود کو افغانستان کی جمہوری حکومت کا وزیرخارجہ گردانتے ہوئے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوئٹریز کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ محمد ولی نعیمی افغانستان کے مشن کی بطور چارج ڈی افئیر ز قیادت کریں گے۔
خط کے متن کے مطابق، جب اساکزئی نے استعفی دیا تو اصول کے مطابق ولی نعیمی کو ذمہ داری سنبھالنی چاہیے تھی لیکن چونکہ وہ بیمار تھے اس لیےنصیر فائق کو چارج ڈی افیئر زمقرر کیا گیا.
حنیف اتمر کے بیان کے مطابق، چونکہ نعیمی اب صحتیاب ہو چکے ہیں، ان کو مسقل مشن کا چارج ڈی افئیرزبنا دیا گیا ہے اور فائق مشن کے اندرتفویض پہلے والی ذمہ داری ادا رکریں گے۔
افغانستان مشن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ اس بات کے پیش نظر کہ نائب نمائندے ولی نعیمی صحتیاب ہو چکے ہیں، اقوام متحدہ کے ان معیارات کے مطابق کہ سفیر یا مستقبل مندوب کے بعد ان کا نائب ذمہ داریاں سنبھالے گا، ولی نعیمی نے چار جنوری سے چارج ڈی افئیرز کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔‘‘
دوسری جانب منگل کے روزنصیر فائق نے اپنی ایک ٹویٹ کہا تھا کہ سابق حکومت کے ، ان کے الفاظ میں، بدعنوان عہدیدار ان کی آواز دبانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انصاف کے لیےافغان عوام کے تحفظات کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنے سے روکا جا سکے۔
’’ میں اپنے خلاف بدعنوان افراد اور سابق بدعنوان حکومتی عہدیداروں کے برے منصوبوں اور سازشوں کے بارے میں بتانا چاہوں گا خاص طور پر یہ چیزیں تب شروع ہوئیں جب میں نے 26 جنوری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی میٹنگ میں اپنے پچھلے بیان میں کہا تھا کہ میں سابق بدعنوان حکومت کی نمائندگی نہیں کر رہا۔ میں نے اس اجلاس میں سلامتی کونسل پر اس بارے میں بھی زور دیا تھا کہ سابق عہدیداروں کے اکاونٹس بھی منجمد کیے جائیں جنہوں ںے غیرقانونی طور پر اثاثے اپنے اکاونٹس میں منتقل کیے ہیں۔ اور ان کو جوابدہ ٹھہرایا جائے‘‘۔
اقوام متحدہ میں افغانستان کا نمائندہ ہے کون؟
اقوام متحدہ کے نیویارک ہیڈکوارٹر سے وائس آف امریکہ کی نمائندہ مارگریٹ بشیر کے مطابق، اقوام متحدہ میں اس وقت جو مشن کام کر رہا ہے اس کے عہدیداروں کی اسناد کی منظوری سابق افغان صدر حامد کرزئی کے دور میں دی گئی تھی کیونکہ افغانستان کے مستقل مندوب غلام اساکزئی صدر کرزئی کی طرف سے ہی بھجوائے گئے تھے۔ سفیر غلام اساکزئی نے طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد استعفی دے دیا تھا جس کے بعد اقوام متحدہ کی ’ کریڈینشل کمیٹی‘ کا اجلاس منعقد نہیں ہوا۔اس اعتبار سے مشن کی قانونی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ طالبان کو بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے افغانستان مشن میں کوئی تبدیلی کر سکیں کیونکہ دنیا نے تاحال طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
SEE ALSO: طالبان وزیر خارجہ دنیا سے قبولیت کے لیے کیوں پر اعتماد ہیں؟اقوام متحدہ کے اندر جو کمیٹی مختلف ممالک کے نمائندوں کی اسناد کی منظوری دیتی ہے، اس نے یکم دسمبر کو جن دو ممالک کے سٹیٹس کے بارے میں فیصلہ ملتوی کر دیا تھا ان میں افغانستان اور میانمار شامل ہیں۔ افغانستان میں طالبان عسکریت پسند بزور طاقت اقتدار میں آ گئے تھے جبکہ میانمار میں فوجی جنتا نے یکم فروری دو ہزار اکیس کو منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ میانمار کی حکومت اقوام متحدہ میں اپنے مندوب تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
اقوام متحدہ میں اسناد کی منظوری دینے والی کمیٹی میں جن نو ممالک کے نمائندے موجود ہیں ان میں باہاماز، بھوٹان، چلی، چین، روس، سیرا لیون، سویڈن اور امریکہ شامل ہیں۔ مارگریٹ بشیر کی رپورٹ کے مطابق افغانستان اور میانمار کی حکومتوں کا بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہ ہونا، اس کمیٹی کے فیصلوں کے طریقہ کار کو پیچیدہ بنا رہا ہے۔
گزشتہ روز اقوام متحدہ میں ایک بریفنگ کے دوران جب افغانستان کے مشن کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوال کیا گیا اور پوچھا گیا آیا ادارہ اب بھی افغانستان کے مشن میں تبدیلیوں کے حوالے سے ایسے شخص کی ہدایات قبول کر رہا ہے جو اب وزیر نہیں رہے، اس پر ترجمان سٹیفن ڈی جورے نے کہا کہ صورتحال پیچیدہ ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں اٹھائے جانے والے سوالات پر صحافیوں سے کہا کہ وہ تحریری طور پر یہ سوالات ان کو بھجوائیں، وہ اس بارے میں ان پر غور کریں گے۔
بدھ کے روز بھی اقوام متحدہ کی بریفنگ میں جب اس بارے میں سوال کیا گیا کہ افغانستان کی نمائندگی کون کر رہا ہے تو وہاں موجود پاکستان کے ایک سنئیر صحافی چوہدری افتخار علی کے مطابق سٹیفن ڈی جورے نے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ہم اس مسئلے پر وضاحت کا انتظار کر رہے ہیں۔
اس معاملے پر سابق افغان مندوب غلام ایم اساکزئی کا موقف لینے کے لیے ان کو تحریری پیغام بھیجا گیا ہے جس کا تاحال جواب موصول نہیں ہوا ہے۔