|
کراچی -- پاکستان میں پولیس اور خفیہ ادارے اس شہری کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس پر منگل کو امریکہ میں امریکی حکومتی اہلکار یا سیاست دان کے قتل کی سازش کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
امریکہ میں 46 سالہ پاکستانی شہری آصف رضا مرچنٹ کی گرفتاری نے اس کے آبائی شہر کراچی پولیس کے حکام کو بھی حیرانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کو شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دو سے زائد ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ آصف رضا مرچنٹ بینکر تھے اور آخری بار بینک آف پنجاب سے منسلک رہے تھے۔
پاکستانی حکام کے مطابق آصف رضا مرچنٹ کراچی کے علاقے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں واقع بینک کی برانچ میں مینیجر کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔
آصف نے گزشتہ سال ہی ملازمت چھوڑ دی تھی۔ ملزم نے جون 2002 میں اپنے کریئر کا آغاز میٹروپولیٹن بینک سے کیا اور اس کے بعد وہ سلک بینک اور فیصل بینک سے بھی وابستہ رہے۔
حکام نے آصف مرچنٹ کی معلومات حاصل کر لیں
حکام نے آصف مرچنٹ کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل کرلیں ہیں۔ ان تفصیلات میں آصف مرچنٹ کی رہائش، زیر استعمال گاڑیوں، بینک اکاونٹس، ملازمتوں اور سفری ریکارڈ شامل ہے۔
تفصیلات کے مطابق آصف مرچنٹ نے تین پاسپورٹس پر 2 نومبر 2017 سے 8 اپریل 2024 تک متعدد مرتبہ ایران کا سفر کیا۔ گزشتہ سال17 ستمبر 2023 سے 15 اکتوبر 2023 کا عرصہ بھی آصف مرچنٹ نے ایران میں گزارا۔ اکتوبر 2023 میں ایران سے واپسی کے بعد 21 نومبر کو آصف مرچنٹ نے امریکہ کا سفر کیا۔ آصف مرچنٹ 17 دسمبر 2023 کو امریکہ سے واپس پاکستان پہنچا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹریول ہسٹری کے مطابق رواں سال 15 جنوری کو آصف مرچنٹ نے کراچی کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے ایک بار پھر ایران کا سفر کیا۔ ایران کے اس سفر سے آصف مرچنٹ کی واپسی 12 فروری 2024 کو ہوئی اور ایک بار پھر یکم اپریل کو آصف مرچنٹ نے کراچی سے ایران کے لیے پرواز لی۔ آصف مرچنٹ آٹھ اپریل کو ایران کے سفر سے واپس کراچی پہنچا۔
پاکستان سے آصف مرچنٹ نے 11 اپریل 2024 کو ترکی کے راستے امریکہ کا سفر کیا۔ آصف مرچنٹ کے کراچی میں گلشن اقبال اور جعفر طیار سوسائٹی میں دو گھر سامنے آئے ہیں۔
کراچی کی نیو پورٹ انسٹی ٹیوٹ سے مینجمنٹ سسٹم میں ماسٹرز کی ڈگری یافتہ آصف مرچنٹ نے 2002 سے بنکنگ کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ ایک بنک ملازمت سے آصف مرچنٹ کو مبینہ کرپشن پر برطرف بھی کیا گیا تھا۔ اسی طرح آصف مرچنٹ کے زیر استعمال چار پاکستان موبائل نمبروں اور ایک انٹرنیشنل نمبر کی تفصیلات بھی حاصل کر لی گئی ہیں۔
حکام کو کراچی میں آصف مرچنٹ کے زیر استعمال تین گاڑیوں اور ایک موٹر سائیکل کا ریکارڈ بھی ملا ہے۔
'ملزم ایران، عراق اور متعدد بار امریکہ جاتا رہا ہے'
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ میں گرفتار شہری کی ٹریول ہسٹری بتاتی ہے کہ وہ ایران، عراق اور شام کے کئی سفر کر چکا تھا۔
سن 2023 میں اس کا ایران دو بار جانا ہوا تھا جس میں سے ایک دفعہ ہوائی اور ایک بار زمینی راستے سے وہ ایران داخل ہوا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نے کراچی سے اپریل کے شروع میں امریکہ کا سفر کیا تھا۔ جب کہ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار امریکہ کا سفر کر چکا تھا۔
سرکاری ذرائع نے یہ دعویٰ کیا کہ آصف رضا مرچنٹ کے دو خاندان ہیں۔ ان میں سے ایک ایران میں اور دوسرا پاکستان میں مقیم ہے۔ اس بارے میں کام کرنے والے ایک سیکیورٹی ادارے نے کراچی میں مرچنٹ کے خاندان کے دو گھروں کا کھوج لگا لیا ہے۔ تاہم ان کے اہلِ خانہ کے بارے میں کوئی معلومات شیئر نہیں کی گئیں کہ وہ کسی گھر میں مقیم ہیں یا نہیں۔
دوسری جانب وفاقی تفتیشی ادارے (ایف بی آئی) نیو یارک فیلڈ آفس کی قائم مقام اسسٹنٹ ڈائریکٹر کرسٹی کرٹس نے اپنے بیان میں کہا کہ خوش قسمتی سے آصف مرچنٹ نے ایف بی آئی کے خفیہ ایجنٹوں کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اس سازش کا پتا چل سکا۔
آصف مرچنٹ کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ قتل کے منصوبے کے لیے مطلوبہ شخص سے ملاقات اور پلان تیار کر کے 12 جولائی کو امریکہ چھوڑ رہا تھا۔
محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ آصف مرچنٹ کے پلان کے مطابق امریکی سیاسی شخصیت کا قتل اگست کے آخر یا ستمبر کے پہلے ہفتے میں کیا جانا تھا۔ سازش کا علم ہونے پر امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک اہلکار نے خود کو 'ہٹ مین' یا 'کرائے کا قاتل' ظاہر کر کے آصف سے پانچ ہزار ڈالرز وصول کیے۔
امریکی محکمہ انصاف نے الزام عائد کیا ہے کہ اس پاکستانی شہری کے ایران سے قریبی تعلقات تھے اور وہیں سے اس قتل کی سازش تیار کرنے کے احکامات ملے تھے۔
امریکی اسسٹنٹ اٹارنی میتھیو جی اولسن کا کہنا تھا کہ غیر ملکی کرداروں کی جانب سے سابق اور موجودہ عہدے داروں کو نشانہ بنانا امریکی خودمختاری کی توہین ہے اور ہمارے جمہوری ادارے اور محکمہ انصاف اس گھناؤنی سرگرمی کو بے نقاب کرنے اور اس میں خلل ڈالنے کے لیے ہر ممکن ہتھیار استعمال کریں گے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے یہ پتا چلتا ہو کہ ملزم کا تعلق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے سے ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے رات گئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستانی حکام امریکی حکام سے رابطے میں ہیں اور مزید تفصیلات کا انتظار کیا جارہا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان نے امریکی حکام کے بیانات کو بھی نوٹ کیا ہے کہ یہ ایک جاری تحقیقات کا حصہ ہے۔ اور اس حوالے سے کوئی بھی ردِعمل دینے سے پہلے اس انفرادی شخص سے متعلق معلومات کا حصول بھی ضروری ہے۔