امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان نے کہا کہ اردن اور شام کی سرحد کے قریب اس کے فوجی اڈے ٹاور 22 پر حملے میں ایران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیم کے ملوث ہونے کے شواہد مل رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق پینٹاگان نے بیان میں ’کتائب حزب اللہ‘ کی جانب اشارہ کیا ہے کہ وہ اس ڈرون حملے کی ذمہ دار ہو سکتی ہے۔
اردن کے انتہائی شمال مغرب میں امریکی فوجی اڈے ٹاور 22 پر ایک ڈرون حملہ کیا گیا جس میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی جب کہ اس میں 34 اہلکار متاثر ہوئے۔
کتائب حزب اللہ کا قیام دو دہائی قبل 2003 میں اس وقت عمل میں آیا تھا جب امریکہ کی قیادت میں اتحادی فوج نے عراق پر حملہ کیا تھا۔
کتائب حزب اللہ کا عراق میں اثر و نفوز موجود ہے جب کہ اس کو ایران کی بھر پور حمایت بھی حاصل ہے۔
یہ ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروہوں کے اتحاد ’اسلامی مزاحمت‘ (اسلامک رزسٹنٹ) کا انتہائی طاقت ور مسلح تنظیم ہے۔ اس اتحاد میں مسلمانوں کے اہلِ تشیع فرقے کے بیشتر مسلح گروہ شامل ہیں۔
SEE ALSO: اردن میں ڈرون حملے میں نشانہ بننے والا امریکی فوجی اڈہ ’ٹاور 22‘ کیا ہے؟عسکری گروہوں کے اتحاد ’اسلامی مزاحمت‘ نے غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کے آغاز کے بعد سے خطے میں امریکہ کی عسکری املاک اور فوجیوں پر لگ بھگ 150 حملے کیے ہیں۔
کتائب حزب اللہ نے اپنے قیام کے بعد ہی 2000 کی دہائی میں فوجی تنصیبات اور سفارتی املاک پر ہلاکت خیز حملے کیے۔ اس نے اپنے حملوں میں اسنائپز، راکٹ، مارٹر، سڑک کنارے بموں کی تنصیب سمیت دیگر طریقے استعمال کیے۔
کتائب حزب اللہ نے اپنے کبھی بھی اپنے مہلک حملوں کی تردید یا ذمہ داری قبول نہیں کی۔
کتائب حزب اللہ پراسرار کیوں؟
عراقی حکام اور اس کے اپنے ارکان کے مطابق کتائب حزب اللہ ایک ایسا گروہ ہے جس کی کوئی باقاعدہ اعلان شدہ قیادت یا تنظیمی ہیئت موجود نہیں ہے۔ لیکن اس تنظیم میں شامل جنگجوؤں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تنظیم ڈرون طیاروں، راکٹوں، محدود فاصلے تک ہدف بنانے والے بیلیسٹک میزائلوں سمیت دیگر خطرناک جنگی ساز و سامان سے لیس ہے۔
SEE ALSO: اردن میں امریکی افواج پر حملہ: آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟کتاب حزب اللہ کے نظریات میں شامل ہے کہ عراق، شام اور لبنان کے درمیان سرحدیں مغربی ممالک نے قائم کی ہیں۔
کتائب حزب اللہ کے نظریات
شام میں خانہ جنگی کے دوران کتائب حزب اللہ دیگر اہلِ تشیع عسکری گروہوں کے ہمراہ مل کر سنی مسلح گروہوں سے متصادم رہی ہے۔ اس وقت بھی شام میں کتائب حزب اللہ فعال ہے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق اس تنظیم کا خیال ہے کہ امریکہ کی عراق میں موجود فوج ایک غیر ملکی قابض قوت ہے اور اس کو طاقت کے ذریعے بے دخل کرنا ضروری ہے۔
امریکہ کے کتائب حزب اللہ کے خلاف اقدامات
امریکہ نے کتائب حزب اللہ کو 2009 میں ہی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔
اس تنظیم کی 2020 تک قیادت عراق اور ایران کی شہریت رکھنے والے ابو مہدی المہندس کے پاس تھی۔
امریکہ نے 2020 میں عراق کے دارالحکومت بغداد کے ایئرپورٹ کے قریب ایک ڈرون حملہ کیا تھا جس میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی ذیلی فوج ’قدس فورس‘ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس ڈرون حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کے ہمراہ ابو مہدی المہندس کی بھی موت ہوئی تھی۔
SEE ALSO: اردن میں دشمن ڈرون کو غلطی سے امریکی ڈرون سمجھا گیا: ابتدائی رپورٹسامریکہ گزشتہ کئی برس سے کتائب حزب اللہ کے ٹھکانوں، عسکری اڈوں، تربیتی مراکز اور اہم ترین املاک کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
حالیہ عرصے میں اس تنظیم کے ڈرون اور راکٹ حملوں کے جواب میں امریکہ نے گزشتہ ہفتے ہی بغداد سے لگ بھگ 50 کلومیٹر دور کتائب حزب اللہ کے مضبوط ترین گڑھ جرف الشکر متعدد مقامات کو نشانہ بنایا تھا۔
عراق میں سرکاری فورسز کا حصہ
کتائب حزب اللہ نے عراق میں ’پاپولر موبلائزیشن فورسز‘ (پی ایم ایف) کی کئی بٹالین قائم کی ہیں۔
پاپولر موبلائزیشن فورسز 2014 میں اس وقت قائم کی گئی تھیں جب شدت پسند تنظیم داعش نے عراق اور شام کے کئی علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا تھا۔ پاپولر موبلائزیشن فورسز نے داعش کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لیا تھا۔
عراق نے بعد ازاں پاپولر موبلائزیشن فورسز کے بٹالینز کو اپنی سرکاری فورسز کا حصہ بنا لیا تھا۔
یوں اس کے جنگجوؤں کو سرکاری خزانے سے تنخواہیں ادا ہوتی ہیں جب کہ وہ کتائب حزب اللہ کے ارکان بھی ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا: وائٹ ہاؤس کا اردن حملے پر ردعملامریکہ نے کتائب حزب اللہ کے بعض سینئر ارکان کو دہشت گرد بھی قرار دیا ہے۔ لیکن یہ افراد ’پاپولر موبلائزیشن فورسز‘ میں اعلیٰ عہدوں پر ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔
’پاپولر موبلائزیشن فورسز‘ تیکنیکی طور پر عراق کے وزیرِ اعظم کے ماتحت ہے۔ لیکن یہ فورسز شاذ و نادر ہی چین آف کمانڈ کے تحت کام کرتی ہیں۔ اس لیے عراق کی حکومت کے لیے یہ ایک مشکل معاملہ ہے کیوں کہ حکومت احکامات کے برخلاف امریکی فورسز پر حملے ہو رہے ہیں۔
سیاست میں انٹری
کتائب حزب اللہ نے سیاست میں انٹری کی عوامی سطح پر تردید یا تصدیق تو نہیں کی۔ لیکن تین برس قبل ایک عراق کی ایک سیاسی جماعت نے انتخابات میں حصہ لیا تھا جس کے تانے بانے کتائب حزب اللہ سے جوڑے جاتے ہیں۔
سال 2021 کے انتخابات میں اس سیاسی جماعت نے متعدد نشستیں بھی جیتی ہیں اور اب وہ پارلیمان کا حصہ ہے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔