عمار علی جان نے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کیا ہے۔ کم عمری میں بھی انہیں درس و تدریس کا خاصا تجربہ ہے اور وہ طویل عرصے تک کسی تعلیمی ادارے کی خدمت کر سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے کالج اور یونیورسٹیاں ان سے پڑھوانا نہیں چاہتیں۔
2016 میں پاکستان آنے کے بعد انہوں نے لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا۔ ڈیڑھ سال بعد ان سے معذرت کر لی گئی۔ انہیں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھانے کا موقع ملا۔ ایک سال بعد کھڑے کھڑے رخصت کردیا گیا۔ دو روز پہلے تک وہ لاہور کے فورمین کرسچن (ایف سی) کالج کے استاد تھے۔ لیکن 21 جون کو ان کے کانٹریکٹ کی تجدید نہیں کی گئی۔
عمار علی جان کے لیے یہ انہونی نہیں ہے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کا کانٹریکٹ ختم ہوگا تو انہیں گھر جانا پڑے گا۔ اس سال کے شروع تک وہ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ پھر معاہدہ تبدیل کر کے انہیں وزٹنگ فیکلٹی قرار دیا گیا۔ اب ان کا یہ نسبتاً کم اہم درجہ بھی ختم ہو گیا ہے۔
عمار علی جان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تیکنیکی طور پر وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں نوکری سے نکالا گیا ہے۔ کالج کے ریکٹر نے ان سے کہا تھا کہ وہ فوری طور پر تمام سیاسی سرگرمیاں بند کردیں کیوں کہ ان کا ادارہ "حساس" صورتِ حال کا شکار ہے اور متنازع نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے ریکٹر کو آگاہ کیا کہ ان کا ایک سابق طالب علم عالمگیر وزیر طلبہ کے لیے حقوق مانگنے پر جیل میں ہے اور وہ اسے اس مرحلے پر نہیں چھوڑ سکتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عمار علی جان نے گزشتہ سال نومبر میں طلبہ یونینز کی بحالی اور دوسرے مطالبات کے لیے طلبہ یک جہتی مارچ منظم کیے تھے جس کے بعد ان پر بغاوت کا مقدمہ قائم کر کے انہیں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
اس سے پہلے فروری 2019 میں بھی انہیں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما ارمان لونی کی ہلاکت پر مظاہرے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ لاہور لٹریچر فیسٹول اور کئی دوسری تقریبات میں انہیں مدعو کرنے کے بعد معذرت کی جاتی رہی ہے۔
عمار علی جان نے ہفتے کو اعلان کیا کہ اب وہ ایف سی کالج کا حصہ نہیں رہے۔ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کیا اور کچھ نے ان پر تنقید بھی کی۔
I sadly announce that I will no longer be teaching at Forman Christian College. Earlier this year, my contract was changed to visiting faculty from the position of Assistant Professor. Now I wont continue as a visiting lecturer either.After returning to Pakistan in 2016, was
— Ammar Ali Jan (@ammaralijan) June 20, 2020
انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کے ڈاکٹر عدنان حیدر نے عمار کو پیش کش کی کہ وہ ان کے ادارے میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ عمار علی جان نے ان کا شکریہ ادا کیا اور آئی بی اے میں پڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی۔ لیکن پھر پراسرار طور پر ڈاکٹر عدنان حیدر کا ٹوئٹ ڈیلیٹ ہو گیا۔
ناول نگار محمد حنیف نے عمار کے ٹوئٹ پر ردعمل دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ کراچی کی حبیب یونیورسٹی نے بھی حال میں انہیں باہر کا راستہ دکھایا ہے۔ انہوں نے وہاں چند سیمسٹر پڑھائے تھے اور انہیں یہ کام پسند آنے لگا تھا۔ اب وہ اپنے طلبہ کو یاد کریں گے۔
وائس آف امریکہ نے محمد حنیف سے رابطہ کیا تو انہوں نے زیادہ بات کرنے کے بجائے صرف اتنا کہا کہ بس ان کا کانٹریکٹ ختم ہو گیا تھا۔
محمد حنیف 'بی بی سی' اور کئی غیر ملکی اخبارات کے لیے کالم لکھتے ہیں جن میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر طنز کیا جاتا ہے۔ ایک بار کراچی لٹریچر فیسٹول میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "وہ لوگ" جب کسی شخص کو پسند نہیں کرتے تو اس کی عوام تک رسائی محدود کر دیتے ہیں۔
فورمین کرسچن کالج سے رابطے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ حبیب یونیورسٹی کے ایک اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ محمد حنیف کو پڑھانے میں دلچسپی نہیں تھی اور وہ یونیورسٹی بھی کم آتے تھے۔
سوشل میڈیا پر یہ خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ پرویز ہود بھائی کو بھی ایف سی کالج میں پڑھانے سے روک دیا گیا ہے لیکن ایک کولیگ کے مطابق ان کا ایک سال کا کانٹریکٹ باقی ہے۔ وائس آف امریکہ نے پرویز ہودبھائی سے تصدیق چاہی تو انہوں نے کہا کہ میں جلد اس بارے میں آگاہ کروں گا لیکن فی الحال معذرت۔
ڈاکٹر عمار علی جان اور محمد حنیف کو ہٹائے جانے پر سوشل میڈیا پر بھی ردعمل سامنے آیا ہے۔
ایک صارف یوسف نذر کا کہنا ہے کہ افسوس کی بات ہے کہ باصلاحیت اور باشعور اساتذہ کی محض اس بنیاد پر حوصلہ شکنی کی جا رہی کیوں کہ ریاستی اداروں کو وہ پسند نہیں۔
We are a sad and unfortunate country where bright and learned people like @ammaralijan and @mohammedhanif can’t teach at universities because the security state hates dissent and independent thinking and universities’ administrators are spineless https://t.co/TmvLuiEZb8
— Yousuf Nazar (@YousufNazar) June 21, 2020
ایک اور صارف ندا کرمانی نے لکھا ہے کہ یہ ریاست کی بدقسمی ہے کہ اتنے قابل اساتذہ کے لیے کوئی تعلیمی ادارہ نہیں جہاں وہ پڑھا سکیں۔
We are a sad and unfortunate country where bright and learned people like @ammaralijan and @mohammedhanif can’t teach at universities because the security state hates dissent and independent thinking and universities’ administrators are spineless https://t.co/TmvLuiEZb8
— Yousuf Nazar (@YousufNazar) June 21, 2020
ایک صارف ایمن بچہ نے لکھا ہے کہ یہ وہ قیمت ہے جو آپ کو کلاس روم میں بچوں کو سچ بولنے اور کچھ ہٹ کر سوچنے کی تعلیم دینے کی پاداش میں ملتی ہے۔
This is the cost you bear for speaking the truth and cultivating critical thinking in the classroom. All academics, the only answer is to ‘organise, organise, organise’ - if we do not build our collectives everything and more will be taken from all of us. https://t.co/7uAUoAg57m
— aimen bucha (@AimenBucha) June 20, 2020
صحافی رضا رومی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ یہ کتنی بدقسمتی ہے کہ ایک باصلاحیت اور طلبہ کو شعور دینے والے نوجوان استاد کی ملازمت کو تین بڑی یونیورسٹیز نے ختم کیا جب کہ اس پر غداری کا مقدمہ بھی بنایا گیا۔
This is the cost you bear for speaking the truth and cultivating critical thinking in the classroom. All academics, the only answer is to ‘organise, organise, organise’ - if we do not build our collectives everything and more will be taken from all of us. https://t.co/7uAUoAg57m
— aimen bucha (@AimenBucha) June 20, 2020