تب ِدق ایک مہلک مرض ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ملٹی ڈرگ ریسسٹنٹ ٹیوبر کولوسس، یا دوسرے الفاظ میں تپ ِدق کے خلاف مدافعت کی جنگ ہارنے والے مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
عالمی ادارہ ِصحت کے مطابق، سال ِرواں میں تپ ِدق کے خلاف مدافعت کمزور ہوجانے والے مریضوں کے 4 لاکھ 80 ہزار نئے کیسز درج کیے گئے۔
عالمی ادارہ ِصحت کے مطابق، 2013ء میں دنیا بھر میں پھیپھڑوں سے متعلق امراض میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 1.5 ملین تھی۔
حالیہ چند برسوں میں ٹی بی یا تپ ِدق کے لیے استعمال کی جانے والی دواؤں کے خلاف مدافعت کے باعث متاثرہ مریضوں میں یہ مرض ختم کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
متعلقہ مریض کو غلط ادویات، دوا کی غلط مقدار دینے یا پھر تپ ِدق کے مریض کے لیے علاج میں بے قاعدگی برتنے کے باعث، تپ ِدق کے مریضوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ اضافہ عالمی سطح پر سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
رواں برس تقریباً 9 ملین افراد کو تپ ِدق کا مرض لاحق ہوا اور ان میں 3.5 فی صد افراد میں اس مرض کی ادویات ناکارہ ثابت ہوئیں۔
ان مریضوں کا علاج تپ ِدق کے دوسرے مریضوں کی نسبت زیادہ مشکل تھا اور اایسے مریض کے صحتیاب ہونے کے امکانات خاصے کم تھے۔
عالمی ادارہ ِ صحت کے مطابق، ایسے مریضوں میں تپ ِدق کی ادویات بے اثر ہوتی چلی گئیں، اور یوں، اُن میں علاج میں کامیابی کی شرح بہت کم رہ گئی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق، تپ ِدق کی علامات میں بخار، پسینہ آنا، کھانسی، وزن میں کمی اور بلغم آنا شامل ہے۔ یہ مرض ایک مریض سے دوسرے فرد کو بھی لگ سکتا ہے۔
عالمی ادارہ ِصحت کے تخمینے کے مطابق، اس مرض سے نمٹنے کے لیے سالانہ 8 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔