اسرائیلی وزیرِاعظم کی نکتہ چینی پر امریکہ کا سخت ردِ عمل

فائل

امریکی ترجمان نے اسرائیلی وزیرِاعظم کے بیان پر ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے انہیں اسرائیل کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے جاری امریکی حمایت اور امداد بھی یاد دلائی ہے۔

امریکہ نے اسرائیل کے وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کی جانب سے واشنگٹن کی پالیسیوں پر کی جانے والی نکتہ چینی کو مسترد کرتے ہوئے انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اسرائیلی وزیرِاعظم نے اتوار کو امریکی ٹی وی 'سی بی ایس' کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مشرقی یروشلم میں نئی اسرائیلی بستی کی تعمیر پر امریکہ کی تنقید خود امریکی اقدار کے خلاف ہے۔

نیتن یاہو کے بیان پر 'وہائٹ ہاؤس' نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم کی جانب سے اپنی حکومت کے اقدامات کے دفاع میں واشنگٹن کے ردِ عمل کو امریکہ کی اقدار سے متصادم قرار دینا انتہائی نامناسب طرزِ عمل ہے۔

پیر کو معمول کی پریس بریفنگ کےد وران 'وہائٹ ہاؤس' کے ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکہ کی پالیسی گزشتہ کئی حکومتوں سے واضح اور مستقل چلی آرہی ہے اور اس میں ڈیمو کریٹس یا ری پبلکنز کے برسرِ اقتدار آنے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

ترجمان نے کہا کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں ہر ایسے یک طرفہ اقدام کی مخالف کرتا ہے جس کے نتیجے میں یروشلم کی حیثیت متاثر ہو یا تنازع کے حل کے لیے ضروری امور پر فرق پڑے۔

'وہائٹ ہاؤس' کے ترجمان نے کہا کہ اس نوعیت کے تمام معاملات کا فیصلہ فریقین کے درمیان براہِ راست مذاکرات کے ذریعےہی ہوسکتا ہے جس کے لیے صدر براک اوباما نے ان تھک کوششیں کی ہیں۔

امریکی ترجمان نے اسرائیلی وزیرِاعظم کے بیان پر ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے انہیں اسرائیل کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے جاری امریکی حمایت اور امداد بھی یاد دلائی ہے۔

پریس بریفنگ کے دوران ترجمان نے کہا کہ یہ "امریکی اقدار" ہی ہیں جن کی بنیاد پر واشنگٹن اسرائیل کی غیر متزلزل حمایت اور اس کی سلامتی کے لیے فنڈز کے حصول کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہے۔

'وہائٹ ہاؤس' کے ترجمان نے اسرائیل کو یاد دلایا کہ اس کا میزائل دفاعی نظام "آئرن ڈوم' امریکی فنڈنگ ہی کا نتیجہ ہے جس نے اسرائیل کے ان گنت معصوم شہریوں کو 'حماس' کے راکٹ حملوں سے بچایا ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کے درمیان حالیہ سفارتی کشیدگی کا آغاز گزشتہ ہفتے اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم میں نئی صیہونی بستی کی تعمیر کے اعلان سے ہوا تھا جس پر امریکہ نے تنقید کی تھی۔

فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنی مجوزہ ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں اور امریکہ اور مغربی اقوام کا موقف ہے کہ اس علاقے میں کوئی ایسی تعمیر نہیں ہونی چاہیے جو مستقبل میں تنازع کے حل میں رکاوٹ کا سبب بنے۔