سلطنتِ عثمانیہ نے 30 اکتوبر 1918 کو پہلی عالمی جنگ سے دستبرداری کے لیے برطانیہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے پر دستخط کے بعد اس سلطنت کے زوال کا سفر اختتامی مراحل میں داخل ہو گیا اور بالآخر 29 اکتوبر 1923 کو ترکی کے اعلانِ آزادی کے ساتھ ہی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا۔
چھ سو سال سے زیادہ عرصے تک قائم رہنے والی اس سلطنت کی بنیاد تیرہویں صدی میں ترکی بولنے والے ایک خانہ بدوش قبیلے کے سردار عثمان نے رکھی تھی۔
یہ وہ دور تھا جب جنوب مشرقی ایشیا کے سرسبز میدانوں اور صحراؤں سے تعلق رکھنے والے گھڑ سوار خانہ بدوشوں کے ریلے مغرب کا رُخ کر رہے تھے اور اپنے راستے میں آنے والی سرزمینوں کو فتح کرتے جا رہے تھے۔
عثمان نے اناطولیہ میں رومی سلطنت کے مشرقی حصے کے مضافات پر حملے شروع کیے۔ بعد میں عثمان کے جانشینوں نے بازنطینی سلطنت پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا جس میں انہیں کامیابیاں بھی حاصل ہوتی رہیں۔
پندرھویں صدی عیسوی میں بالآخر ان مسلسل حملوں کے نتیجے مین بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد عثمانی ترکوں نے شمال میں کرائمیا، مشرق میں بغداد و بصرہ اور جنوب میں عرب اور خلیج کے علاقوں کو فتح کر لیا۔
مورخین کے مطابق ایک دور ایسا بھی گزرا جب سلطنت عثمانیہ میں شامل علاقوں کی کل آبادی پانچ کروڑ تھی جب کہ اس وقت انگلستان کی کل آبادی چالیس لاکھ تھی۔ عثمانی سلطنت نے دنیا کی 20 مختلف اقوام پر حکمرانی کی۔
سولہویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کا پھیلاؤ تو جاری رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ داخلی کمزوریاں بھی پیدا ہونا شروع ہو گئی تھیں۔
زوال کا آغاز
اس بارے میں معروف امریکی تاریخ داں برنارڈ لوئس نے 1952 میں ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا جسے سلطنت عثمانیہ کے زوال کے اسباب سمجھنے کے لیے اہم تصور کیا جاتا ہے۔
برنارڈ لوئس کے مطابق سلطنت عثمانیہ کا انتظامی ڈھانچہ اور معیشت 1600 کے بعد بتدریج کمزور ہونا شروع ہو گئے تھے اور یہی دو مسائل آنے والے حکمرانوں کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوئے۔
معیشت اور نظام حکومت کی کمزوری کی وجہ سے عثمانیوں کو یورپ میں حاصل عسکری بالادستی پر بھی زوال آیا۔
دوسری جانب یورپ میں نشاۃ ثانیہ اور صنعتی انقلاب کا دور شروع ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ عثمانی سلطنت میں اقتدار کی چپقلش اور مغربی ممالک سے تجارتی مسابقت میں ناکامی نے سلطنت کو مزید کمزور کر دیا۔
اصلاحات اور بحران
اٹھارہویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کے نظام حکومت میں کئی تبدیلیاں اور اصلاحات کی گئیں۔ 1789 میں سلطان بننے والے سلیم سوم انتظامی اور معاشی نظام میں بڑی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لے کر آئے۔
سن 1808 میں سلطان محمود دوم کے دور میں اصلاحات کا ایک اور دور شروع ہوا۔ ان کے دور میں معاشی و عسکری پالیسوں کی تشکیل نو کی گئی جسے ’تنطیمات‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ بعد میں یہ اصلاحات ان کے بیٹوں عبدالمجید اول اور عبدالعزیز نے نافذ کیں۔
سلطان محمود دوم کے دور میں سلطنت عثمانیہ میں ’تنظیمات‘ یعنی نظام حکومت میں تبدیلیوں کے حامیوں کا ایک گروہ پیدا ہو گیا تھا۔ دوسری جانب مذہبی قوانین اور روایات پر اصرار کرنے والا طبقہ تھا۔ 1876 سے 1909 کے دوران تین دہائیوں میں آنے والے سلطانوں نے ایسی قانونی تبدیلیاں کیں جن پر جدت پسند طبقے میں ردعمل پیدا ہونا شروع ہو گیا۔
پہلا آئینی دور
یہ یورپ میں بھی انقلابی تحریکوں کا دور تھا۔ اسی دور میں سلطان عبدالحمید دوم نے اقتدار سنبھالا تو نظام حکومت میں تبدیلی کے مطالبات بڑھنے لگے۔ خاص طور پر یہ مطالبات کرنے والے ’جوانانِ ترک‘ کے طور پر منظم ہو رہے تھے اور انہیں مغربی تعلیم یافتہ افراد میں مقبولیت حاصل تھی۔
سلطان عبدالحمید نے سلطنت کے لیے پہلا باقاعدہ آئین تشکیل دیا۔ 1876 سے 1878 کے مختصر دورانیے کو سلطنتِ عثمانیہ کا پہلا آئینی دور کہا جاتا ہے۔
آئین سازی کے بعد سلطنت عثمانیہ کا سیاسی کلچر مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی مغربی یورپ کی جانب سے ترکی پر مغربی طرز کے اداروں کے قیام کے لیے دباؤ بڑھنے لگا۔
مغربی ممالک کا یہ دباؤ تو برقرار رہا لیکن جب 1877 سے 1878 میں جزیرہ نما بلقان میں عثمانی صوبوں میں بغاوت کا آغاز ہوا تو سربیا، رومانیہ، بلغاریہ اور مونٹی نیگرو نے روس کے ساتھ اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی۔ جس کے نتیجے میں ترکی اور روس کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا۔
مؤرخین کا کہنا ہے کہ مغربی قوتیں سلطنت عثمانیہ پر جدت اختیار کرنے کا دباؤ تو ڈال رہی تھیں لیکن روس کے خلاف جنگ میں کوئی اس کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھا۔
روس کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد سلطان نے 1876 کا آئین اور پارلیمنٹ کو معطل کر دیا اور آئندہ تین دہائیوں تک ایک مطلق العنان حکمران رہے۔
جوانانِ ترک کی بغاوت
سلطان عبدالحمید کی حکومت کے خلاف 1908 میں موجودہ یونان کے علاقے تھیسالونیکی کے علاقے میں جوانان ترک نے دوبارہ منظم ہونا شروع کیا۔
سلطان عبدالحمید کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اس بغاوت کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے اس لیے انہوں نے نوجوانانِ ترک کے خلاف مزاحمت نہیں کی۔
جوانانِ ترک جب دارالحکومت میں داخل ہوئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ 1876 کا آئین دوبارہ بحال کر دیں گے۔ اس اعلان کے بعد سلطان عبدالحمید کو پارلیمنٹ دوبارہ بحال کرنا پڑی۔
پارلیمنٹ بحال ہونے کے بعد جوانان ترک نے کابینہ تشکیل دی لیکن سلطان کے حامی روایت پسندوں نے اسے ختم کر کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کی کوشش کی جو ناکام ہوئی۔
اقتدار کی اس کشمکش میں جوانانِ ترک نے سلطان عبدالحمید کو معزول کر دیا اور ان کے بھائی سلطان محمد پنجم کو تخت پر بٹھا دیا۔
خاتمے کا آغاز
سلطان عبدالحمید کی معزولی کے بعد سلطنتِ عثمانیہ میں دوسرے آئینی دور کا آغاز ہوا۔ جوانانِ ترک میں شامل مختلف گروہوں نے سیاسی پارٹیاں قائم کرنا شروع کر دیں اور ایک بار پھر اقتدار کی کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ اس دوران عثمانی فوج مختلف محاذوں پر پسپا ہو رہی تھی اور دارالحکومت میں صورت حال مسلسل ابتری کا شکار تھی۔
اسی دوران پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوا۔ عثمانیوں نے اس جنگ میں روس پر حملہ کر دیا اور اس جنگ میں جرمنی، آسٹریا، بلغاریہ کے ساتھ مرکزی قوتوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔
SEE ALSO: ترکی میں آرمینیائی باشندوں کے ساتھ 106 برس قبل کیا ہوا تھا؟عثمانی اتحادی فوجوں کے خلاف ابتدا میں کامیابیاں حاصل کر رہے تھے لیکن عرب جب ان کے مقابلے میں اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے تو عثمانیوں اور مرکزی قوتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست کے بعد برطانیہ، فرانس، اٹلی کی افواج قسطنطنیہ اور ازمیر میں داخل ہو گئیں۔
عالمی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کی اس شکست کے بعد ترکی میں مصطفی کمال کی قیادت میں تک قومی تحریک منظم ہونا شروع ہوئیں۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد
عثمانی حکومت جو مقاصد حاصل کرنے کے لیے پہلی عالمی جنگ میں فریق بنی تھی وہ اسے حاصل نہیں ہو سکے۔ 30 اکتوبر 1918 کو معاہدۃ مدروس کے نام سے ہونے والے سمجھوتے میں اس وقت کے عثمانی سلطان محمد ششم نے یہ تسلیم کیا تھا کہ سلطنت عثمانیہ اناطولیہ میں خاص طور ازمیر پر یونان کے قبضے کے بعد شروع ہونے والی مقامی مزاحمتوں کو روکنے کی پابند ہو گی۔
ان علاقوں میں سلطنت کے فیصلے کے خلاف مقامی ترک قوم پرست گروہ اتحادی قوتوں کے خلاف مزاحمت کا آغاز کر چکے تھے۔
اناطولیہ یا ایشیائے کوچک کے مشرقی حصے میں اس صورت حال کو قابو کرنے کے لیے سلطنت عثمانیہ نے اپنے ایک کامیاب ترین افسر مصطفی کمال کو روانہ کیا۔ لیکن مصطفی کمال نے سرکاری احکامات پر عمل کرنے کی بجائے یونان اوراتحادیوں کے قبضے کے خلاف ہونے والی مزاحمت کو منظم کرنا شروع کر دیا۔
مصطفی کمال کا تعلق بھی نظامِ حکومت میں اصلاح کا مطالبہ کرنے والی کمیٹی آف یونین اینڈ پراگریس تھا جسے جوانانِ ترک کہا جاتا تھا۔
پہلی عالمی جنگ میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد ترک قوم پرست اناطولیہ کے اس خطے پر، جسے وہ ترکی قرار دیتے تھے غیر ملکی قبضے کے خلاف ایسوسی ایشن آف دی ڈیفنس آف رائٹس یا ’مدافعہ حقوق جمیعت لری‘ کے نام سے تھریس میں تنظیم بنا چکے تھے۔
مارچ 1919 میں پورے ملک سے نمائندے ارض روم میں جمع ہوئے اور ایسوسی ایشن فار ڈیفینس آف رائٹس کی تشکیل نو کی گئی اور مصطفی کمال اس کی مجلسِ عاملہ کا چیئرمین منتخب ہو گئے۔
مصطفی کمال پاشا ترک قوم پرستوں میں اس قدر مقبول ہو چکے تھے کہ سلطنت عثمانیہ کو جنوری 1920 میں نئے انتخابات کا اعلان کرنا پڑا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کے بعد بننے والی نئی پارلیمنٹ نے سلطنت عثمانیہ کی پالیسی کی مخالفت کی اور اتحادیوں کے ساتھ ایک نئے قومی معاہدے کی منظوری دی۔
اتحادیوں نے اس نئے معاہدے کا جواب یہ دیا کہ استنبول میں پیش قدمی شروع کر دی اور اپریل 1920 میں مصطفی کمال کے حامیوں کی حکومت کو پسپا ہونا پڑا۔
اب صورت حال یہ تھی کہ مصطفی کمال کے حامی جنھیں کمالسٹ بھی کہا جاتا ہے، کو ایک جانب عثمانی حکومت کا مقابلہ کرنا تھا تو دوسری جانب یونانیوں کا سامنا تھا۔
جنوری 1921 کو ایک بار پھر نیشنل اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں ’بنیادی قانون‘ کی منظوری دی گئی جس کے مطابق ریاست کا نام ترکی کر دیا گیا اور مصطفی کمال کو اس کا سربراہ قرار دیا گیا۔ اس کے بعد سے مصطفیٰ کمال کی قیادت میں یونان اور اتحادیوں کے خلاف مزاحت میں مزید تیزی آ گئی۔
ترک قوم پرستوں کی بڑھتی قوت
مؤرخین کے مطابق 1920 ہی میں اتحادی بھانپ چکے تھے کہ ترک قوم پرستوں کی قوت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اتحادی سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی صورت میں ملنے والے فوائد برقرار رکھنے کے لیے قوم پرستوں کے خلاف سلطنت کا ساتھ دینے کی خواہش تو رکھتے تھے لیکن اس کے لیے ان کے پاس مطلوبہ قوت نہیں تھی۔
دوسری جانب یونانیوں نے اس صورت حال کو اپنے لیے موقع سمجھ لیا تھا اور وہ مشرقی اناطولیہ کا زیادہ سے زیادہ علاقہ حاصل کرنے کے لیے پیش قدمی کر رہا تھا۔ یونان کی اس پیش قدمی نے مصفطی کمال کی قیادت میں اس مزاحمت کو تیز کیا جسے بعد میں ترکوں کی جنگِ آزادی کا نام دیا گیا۔
مصطفی کمال 1920 تک داخلی شورش پر قابو پا چکے تھے اور انہیں یورپ میں بھی قبولیت حاصل ہونا شروع ہو گئی تھی۔ 16 مارچ 1921 کو ترکی اور سوویت یونین میں ایک سمجھوتا ہوا جس کے نتیجے میں مشرقی علاقے اسے واپس مل گئے۔
اسی طرح معاہدہ انقرہ کے بعد فرانس نے جنوبی اناطولیہ کے علاقے واپس کر دیے اور ترکی کو استنبول اور مشرقی تھریس کا قبضہ بھی دوبارہ مل گیا۔
بالآخر معاہدۂ لوزان کی صورت میں ایک جامع سمجھوتا ہو گیا جس کے نتیجے میں موجودہ ترکی کی حدود کا تعین ہوا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ایک ایسی ریاست قائم ہوئی تھی جس کی زیادہ تر آبادی ترک بولتی تھی اور اس کی تشکیل ترک قوم پرستوں نے کی تھی۔
انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا کے مطابق مصطفی کمال نے ترک قومی پرستی کے لیے بنیادی کردار ادا کیا تھا اور وہ ملک کے لیے ایک نیا سیاسی نظام قائم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے حامیوں میں سلطنت عثمانیہ سے وفاداری کا احساس برقرار تھا۔
مبصرین کے مطابق مصطفی کمال عثمانی خاندان سے تعلق کے اسی احساس کو مستقبل کے اپنے منصوبوں کے لیے خطرہ تصور کرتے تھے۔
فیصلہ کُن قدم
عثمانی سلطان محمد نے اتحادیوں کے ساتھ جن شرائط پر معاہدہ کیا تھا اس کے بعد ان کی حمایت کو کمزور کردیا تھا۔ جب اتحادی ممالک نے معاہدہ لیوزان کے لیے سلطان کو وفد نامزد کرنے کی دعوت دی تو مصطفی کمال کو اندازہ تھا کہ اس پر اختلاف رائے ہو گا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان حالات میں وفد کی تشکیل پر اختلافِ رائے سامنے آئے۔
مورخین کے مطابق اس موقع پر مصفطی کمال نے سیاسی حربے استعمال کر کے یکم نومبر 1922 کو اسمبلی کا اجلاس بلا کر سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کی منظوری حاصل کر لی۔ سلطان محمد ششم کو معزول کر دیا گیا اور انہوں نے ترکی چھوڑ دیا۔ سلطان کے چچا زاد عبدالمجید دوم کو سلطان کی بجائے خلیفہ بنایا گیا۔
اگلے ہی برس مصطفی کمال نے ترکی کی ریاستی ڈھانچے کی تشکیل نو مکمل کر لی اور 29 اکتوبر 1923 کو ترکی کو جمہوریہ قرار دیا گیا اور مصطفی کمال اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ 4 مارچ 1924 کو خلافت کے خاتمے بھی اعلان کر دیا گیا اور عثمانی شاہی خاندان کو ترکی سے بے دخل کر دیا گیا۔
اسی سال اپریل میں جمہوریہ ترکی کا آئین بنایا گیا جس میں اسلام کو ریاستی مذہب تسلیم کیا گیا تھا لیکن 1928 میں یہ شق بھی آئین سے ختم کر دی گئی۔
مصطفی کمال اتا ترک 1923 سے 1938 تک ترکی کے حکمران رہے اور اس عرصے میں انہوں نے تیزی سے اصلاحات متعارف کرائیں اور ترکی کو ایک سیکیولر اور مغربی طرز زندگی سے قریب تر ملک بنایا۔
مؤرخین عسکری قوت، نسلی تنوع، فنون کی سرپرستی اور فن تعمیر کے شاہ کاروں کو سلطنت عثمانیہ کی یادگاروں میں شمار کرتے ہیں۔