امریکہ میں صدر کی رہائش گاہ نے تاریخ کے کئی نازک، خوش گوار اور ہولناک ادوار دیکھے ہیں۔ ان میں 24 اگست 1814 ایک ایسا ہی ہولناک دن ہے جب برطانوی فوج نے وائٹ ہاؤس کو آگ لگا دی تھی۔
وائٹ ہاؤس کی عمارت کئی اعتبار سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا سنگِ بنیاد 1792 میں رکھا گیا تھا۔ دنیا بھر سے فنِ تعمیر کے ماہرین سے عمارت کے ڈیزائن کے لیے تجاویز طلب کی گئی تھیں اور پھر آئر لینڈ کے ماہرِ تعمیرات جیمز ہوبن کا ڈیزائن منظور کیا گیا۔
وائٹ ہاؤس کا تعمیراتی کام آٹھ سال میں مکمل ہوا اور 1800 میں اس وقت کے امریکی صدر جان ایڈمز اور اُن کی اہلیہ اس کے پہلے مکین بنے۔
پہلے صدارتی جوڑے کے وائٹ ہاؤس میں رہائش اختیار کرنے کے 14 برس بعد ہی اسے آگ لگا دی گئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ حالتِ جنگ میں تھا اور حملہ آور برطانوی فوج نے وائٹ ہاؤس پر دھاوا بول کر اسے شعلوں کی نذر کر دیا تھا۔ اس جنگ کے اسباب کیا تھے؟ یہ امریکہ اور دنیا کی تاریخ کا اہم باب ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ اور برطانیہ کی جنگ کا پس منظر
انیسویں صدی کے آغاز میں یورپ کی دو بڑی طاقتوں برطانیہ اور فرانس کے درمیان کشیدگی اور تلخیاں بڑھنا شروع ہوگئی تھیں۔ فرانس میں اس وقت نپولین بونا پارٹ کی حکومت تھی اور یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کے خلاف زیادہ سے زیادہ معاشی اور عسکری طاقت جمع کرنے کی فکر میں تھیں۔
انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا کے مطابق اس وقت برطانیہ کے پاس دنیا کی سب سے طاقتور بحریہ تھی اور 1805 میں فرانس کی جنگِ ٹریفالگر میں پسپائی کے بعد اگلی ایک صدی تک سمندر کے تجارتی راستوں پر برطانوی بحریہ کی بلا شرکت غیرے تسلط قائم ہوگیا تھا۔
امریکہ کے فرانس اور برطانیہ دونوں ہی کے ساتھ تجارتی تعلقات تھے اور اس وقت وہ ان کی باہمی چپقلش میں غیر جانب دار تھا۔ لیکن 1806 میں نپولین نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے مطابق برطانوی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے والے جہازوں کو دشمن کے جہاز قرار دیا گیا تھا۔
دوسری جانب 1805 میں فرانس کو پسپا کرنے کے بعد برطانیہ نے اپنے 'رول آف 1756' کے مطابق پالیسی سازی شروع کر دی تھی۔ اس رول کے تحت غیر جانب دار رہنے والے ممالک اگر برطانیہ کے کسی حریف کے ساتھ تجارت کرتے ہیں تو ان کے ساتھ تجارت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی لیے برطانیہ نے 1807 میں ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے مطابق وہ ممالک جو فرانس اور برطانیہ کے تنازع میں غیر جانب دار تھے انہیں فرانس یا فرانس کی نوآبادیات میں تجارت کے لیے برطانیہ سے لائسنس لینے کا پابند بنایا گیا۔
اس میں یہ شرط بھی عائد کی گئی کہ یورپ میں کسی ملک کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے سے پہلے امریکی تجارتی جہازوں کو پہلے برطانیہ کی بندرگاہوں پر رکنا ہوگا۔
ان احکامات کی خلاف ورزی کی صورت میں برطانیہ کی رائل نیوی کو جہازوں کے خلاف کارروائی کا اختیار بھی دیا گیا جس کے نتیجے میں امریکہ کے کئی تجارتی بیڑے ضبط کیے گئے اور ان کے عملے کو بھی قید کیا جانے لگا۔
مؤرخ کک جین ہیمپٹن نے اپنی کتاب ’دی برننگ آف وائٹ ہاؤس‘ میں لکھا ہے کہ امریکہ کے جہاز ایک وقت میں برطانیہ اور فرانس تو پہنچ نہیں سکتے تھے اس لیے دونوں کے بنائے گئے تجارتی ضوابط کی وجہ سے امریکہ کی تجارت کو نقصان پہنچنے لگا۔
تین سے چار برس تک امریکہ ان دونوں ممالک کے ساتھ مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن اس دوران امریکہ کے تجارتی جہازوں کی ضبطی اور ملاحوں کو قید کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
وائٹ ہاؤس ہسٹری سوسائٹی کے مطابق 1810 تک برطانیہ نے امریکہ کے پانچ ہزار ملاحوں اور تاجروں کو حراست میں لے لیا تھا۔
جنگ کا اعلان
برطانیہ کی ان تجارتی پالیسیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے امریکہ نے کینیڈا پر قبضہ کر کے شمالی امریکہ میں اس کا اثر و رسوخ محدود کرنے کا فیصلہ کیا۔ کینیڈا اس وقت برطانیہ کی نو آبادیات میں شامل تھا۔
امریکی سینیٹ کی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کے خلاف سخت موقف رکھنے والے کانگریس ارکان کے ایک گروپ نے ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر ہینری کلے کی سربراہی میں صدر جیمز میڈیسن پر برطانیہ کے خلاف اعلان جنگ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔
ان کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں اور امریکہ نے 17 جون 1812 کو برطانیہ کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ جنگ 1815 تک جاری رہی۔جنگ شروع ہونے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال میں بہت کچھ دونوں فریقوں کی توقعات کے برعکس ہوا۔ اس وقت تک امریکہ کی باضابطہ فوج بن چکی تھی لیکن اس کی تعداد کم اور تربیت ناقص تھی۔
اس کے علاوہ ریاستوں نے اپنے دفاع کے لیے ملیشیا بھی بنائی تھیں۔لیکن جنگ میں ریاستی ملیشیا ناقابلِ اعتبار ثابت ہوئیں۔ جنگ میں کینیڈا سے ملحق امریکہ کی شمالی ریاستوں میں گھمسان کی لڑائی ہوئی۔
اسی دوران برطانیہ نے بحری محاذ بھی کھول دیا اور امریکہ کے وسطی اٹلانٹک ساحلوں کے لیے بحری بیڑہ روانہ کر دیا۔ اگست 1814 میں برطانوی فوج امریکہ کے دارالحکومت کے نزدیک ریاست میری لینڈ اور ورجینیا کے مغربی ساحلوں سے ملحق چسا پیک خلیج میں پہنچ گئی اور واشنگٹن ڈی سی کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔
واشنگٹن ڈی سی پر حملہ کیوں؟
وائٹ ہاؤس ہسٹری سوسائٹی کے مطابق اس دور میں امریکہ کا دارالحکومت ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جو شہر بننے کی جانب گامزن تھا۔ فلاڈیلفیا سے دارالحکومت یہاں منتقل ہوئے صرف 14 برس ہی ہوئے تھے۔ شہر کی آبادی آٹھ ہزار سے زیادہ نہیں تھی جن میں ایک بڑی تعداد غلاموں کی بھی تھی۔
مؤرخین کے مطابق جنگ میں برطانیہ کے لیے واشنگٹن ڈی سی کی کوئی اسٹرٹیجک اہمیت نہیں تھی لیکن برطانوی بحریہ کے شمالی امریکی اسٹیشن کے سربراہ ایڈمرل الیگزینڈر کوکرہین نے امریکیوں کو سبق سکھانے کے لیے یہ اقدام کیا تھا۔
SEE ALSO: نپولین بونا پارٹ: ہیرو یا ولن، فرانسیسی معاشرہ اب بھی مخمصے کا شکارامریکی فوج نے جنگ کے دوران برطانوی نوآبادیات میں شامل بالائی کینیڈا کے دارالحکومت یارک (موجودہ ٹورنٹو) پر حملہ کر کے وہاں لوٹ مار کی تھی اور برطانیہ امریکہ کے دارالحکومت میں تباہی پھیلا کر اس کا انتقام لینا چاہتا تھا۔
مورخین کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے حملے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس کے نتیجے میں امریکہ کے دوبارہ مختلف ریاستوں میں تقسیم ہونے کا امکان پیدا ہوسکتا تھا۔
تاریخ دان انتھونی پچ کے مطابق 1814 کے وسط میں جب نپولین کو برطانیہ سے شکست ہوئی تو یہ توقع کی جارہی تھی کہ برطانیہ اپنی ساری توجہ امریکہ سے جاری جنگ پر مرکوز کر لے گا اور بعد کے حالات نے یہ خدشہ درست ثابت کیا۔
اس دن وائٹ ہاؤس میں کیا ہوا؟
انتھونی پچ لکھتے ہیں کہ یہ ایک شدید گرم دن تھا۔ یہ اطلاعات پہلے پہنچ چکی تھیں کہ واشنگٹن سے کچھ ہی فاصلے پر میری لینڈ میں بلیڈنسبرگ کے محاذ پر برطانوی فوج امریکی آرمی کو پسپا کر چکی ہے اور اس کا اگلا ہدف دارالحکومت ہوگا۔
برطانوی فوج کی پیش قدمی کے ساتھ یہ اطلاعات بھی آرہی تھیں کہ حملہ آور فوج راستے میں آنے والی ہر چیز کو تاراج کرتی ہوئی آ رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انتھونی پچ کے مطابق 24 اگست کو جب برطانوی فوج دارالحکومت پہنچی تو 90 فی صد آبادی شہر چھوڑ چکی تھی۔ برطانوی فوج شدید گرمی میں بھی مسلسل آگے بڑھتی رہی اور دارالحکومت کی حفاظت پر تعینات ملیشیا اور فوج ان کا مقابلہ نہ کرسکی۔
اس جنگ میں امریکہ کی فوج سے تعلق رکھنے والے کموڈور برنی نے برطانوی فوج کو روکنے کی کوشش کی لیکن برطانوی فوج کیپٹل ہل کے علاقے میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ حملہ آور فوج نے ایوانِ نمائندگان کی عمارت کے علاوہ سرکاری اداروں اور صدارتی محل پر دھاوا بول دیا۔
وائٹ ہاؤس ہسٹوریکل سوسائٹی کے مطابق برطانوی فوج کی دارالحکومت کی جانب پیش قدمی کی اطلاعات مسلسل مل رہی تھیں جس کے بعد صدر میڈیسن 22 اگست کو فوجی جرنیلوں کے ہمراہ محاذِ جنگ کے دورے پر واشنگٹن سے روانہ ہو گئے تھے۔ صدر نے جاتے جاتے اپنی اہلیہ ڈولی کو ہدایت کی تھی کہ تمام ضروری سامان جمع کرلیا جائے۔
خاتون اول ڈولی کو اپنے شوہر کا انتظار تھا لیکن انہیں جلد ہی معلوم ہو گیا تھا کہ برطانوی فوج شہر کے نزدیک پہنچ چکی ہے۔ ڈولی میڈیسن نے اپنا ذاتی سامان سمیٹنے کے بجائے وائٹ ہاؤس میں موجود امریکہ کے بانی جارج واشنگٹن کی قد آور تصویر ساتھ لے جانے کو ترجیح دی۔
برطانوی فوجی جب 24 اگست 1814 کو وائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے تو امریکی صدر کی رہائش گاہ میں کوئی موجود نہیں تھا۔ برطانوی فوجیوں نے وہاں کھانے پینے کے سامان کی دعوت اڑائی اور عمارت کو آگ لگانے سے قبل قیمتی سامان بھی لوٹ لیا۔
وائٹ ہاؤس ہسٹوریکل سوسائٹی کے مطابق برطانوی فوجی صرف 26 گھںٹوں تک واشنگٹن میں رہے لیکن انہوں نے جو لوٹ مار اور تباہی مچائی اس کے آثار آج بھی ملتے ہیں۔
برطانیہ اور امریکہ کی جنگ ستمبر 1815 میں بیلجیم کے شہر گینٹ میں ہونے والے ایک معاہدے کے ساتھ ختم ہوئی لیکن صدر میڈیسن اور ان کے اہل خانہ کو اپنے دورِ اقتدار میں دوبارہ وائٹ ہاؤس میں رہنے کا موقع نہیں ملا۔
سن 1817 میں صدر جیمز مونرو وائٹ ہاؤس کی تعمیرِ نو کے بعد یہاں منتقل ہوئے۔
لگ بھگ ڈھائی برس تک جاری رہنے والی اس جنگ سے کسی بھی ملک نے اپنے مقاصد حاصل نہیں کیے۔ لیکن جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے معاہدے نے امریکہ کے چند خدشات دور کیے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات ایک طویل استحکام کے دور میں داخل ہوئے۔