عمران خان کی ایک بار پھر ترسیلاتِ زر نہ بھیجنے کی اپیل؛ معیشت پر کیا اثر پڑے گا؟

  • پاکستان کے مرکزی بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے 27 ارب ڈالر جب کہ 2024 میں مجموعی طور پر 30 ارب 25 کروڑ ڈالرز بھیجے گئے۔
  • توقع کی جا رہی ہے کہ جس رفتار سے ترسیلات بڑھ رہی ہیں، یہ رقم اس سال بڑھ کر 35 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہو جائے گی۔
  • بیرونی ادائیگیوں کے بحران کے شکار پاکستان کے لیے اس رقم کی اہمیت بے حد زیادہ ہے۔ یہ لگ بھگ اتنی ہی رقم ہے جتنا پاکستان سال بھر اشیاٗ برآمد کرکے کماتا ہے۔
  • ایسے تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ استحکام مستقل اسی صورت میں ہو گا جب معیشت کے تمام ہی شعبوں میں اصلاحات کا عمل شروع کیا جائے گا۔

کراچی -- سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک بار پھر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کو ترسیلاتِ زر بھیجنا بند کر دیں۔

عمران خان کے آفیشل اکاؤنٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم نے یہ بات اڈیالہ جیل راولپنڈی میں اپنے وکلا اور میڈیا ٹیم کے ساتھ گفتگو میں کہی۔

عمران خان اس سے قبل بھی سمندر پار پاکستانیوں سے یہی مطالبہ کرچکے ہیں۔ عمران خان کی یہ اپیل ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کے اس مطالبے پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے رقوم بھیجنے پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے اور اس کے نتیجے کے طور پر حکومت کو مالی دھچکا پہنچ سکتا ہے یا نہیں؟

ترسیلات زر میں اضافہ کتنا ہوا اور اس کی اہمیت کیا ہے؟

اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہیں کہ پاکستان میں حالیہ مہینوں اور سالوں میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان کے مرکزی بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے 27 ارب ڈالر جب کہ 2024 میں مجموعی طور پر 30 ارب 25 کروڑ ڈالرز بھیجے گئے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ جس رفتار سے ترسیلات بڑھ رہی ہیں، یہ رقم اس سال بڑھ کر 35 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہو جائے گی۔

بیرونی ادائیگیوں کے بحران کے شکار پاکستان کے لیے اس رقم کی اہمیت بے حد زیادہ ہے۔ یہ لگ بھگ اتنی ہی رقم ہے جتنا پاکستان سال بھر اشیاٗ برآمد کرکے کماتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں پاکستان میں مقیم پاکستانی جس قدر پیسے دنیا میں برآمدات سے کماتے ہیں اتنی رقم بیرون ملک مقیم تقریباً ایک کروڑ پاکستانی بھی کما کر ملک بھیجتے ہیں جس سے پاکستان کی معیشت کو بڑی حد تک سنبھالا ملتا ہے۔

ورکرز ریمیٹینسز یعنی بیرون ملک مقیم کارکنوں کی جانب سے ترسیلات زر بڑھنے ہی کے باعث پاکستان کا جاری کھاتوں کا اکاؤنٹ یعنی کرنٹ اکاونٹ رواں مالی سال کے مسلسل پانچ مہینوں سے مثبت یعنی سرپلس رہا ہے اور گزشتہ چھ ماہ میں یہ رقم ایک ارب 21 کروڑ ڈالر تک جاپہنچی ہے۔

کیا یہ محض سیاسی بیان ہے؟

معاشی تجزیہ کار محمد احسن محنتی نے عمران خان کے بیان کو سیاسی بیان قرار دیتے ہوئے کہا کہ قانونی طریقے سے غیر ملکی رقم بھیجنے سے پاکستانی کی معیشت میں کسی حد تک استحکام دیکھا گیا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور گزشتہ سال کے ڈیفالٹ کے خوف سے کافی حد تک استحکام ممکن ہوا ہے۔

لیکن دوسری جانب کئی معیشت دان اور تجزیہ کار ملکی معیشت میں موجودہ قدرے استحکام کو عارضی بھی قرار دیتے ہیں۔

معاشی تجزیہ کار اور استاد ڈاکٹر عبدالعظیم کے خیال میں معیشت میں نظر آنے والا استحکام محض وقتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کی جانب سے نئے قرض کا تین سالہ پروگرام حاصل کرلینا ہے۔

ایسے تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ استحکام مستقل اسی صورت میں ہو گا جب معیشت کے تمام ہی شعبوں میں اصلاحات کا عمل شروع کیا جائے گا۔

اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے کئی شعبوں بالخصوص وفاقی حکومت کے اخراجات گھٹانے سمیت دیگر میں اصلاحات کا عمل شروع کر دیا ہے۔

لیکن ڈاکٹر عبدالعظیم کے خیال میں یہ خام خیالی ہے اور حکومتی اقدامات کے اثرات ابھی انتہائی مبہم ہیں۔ جب کہ دوسری جانب معاشی حالات اور ملک میں بڑھتی ہوئی غربت کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے پالیسیوں میں فوری اور بڑی تبدیلی کے متقاضی ہیں۔

احسان محنتی کا کہنا ہے کہ انتظامی اقدامات نے غیر قانونی ذرائع سے بڑی رقم میں غیر ملکی کرنسی بھیجنا اور وصول کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی ترسیلات زر کا بڑا حصہ مشرق وسطیٰ سے آتا ہے اور ان میں سے بیش تر ممالک پر ان دنوں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گہری نظر ہے۔ اس لیے وہاں سے حوالہ اور ہنڈی جیسے غیر قانونی طریقوں سے رقم بھیجنا بھی مشکل بن چکا ہے۔

'بیرون ملک مقیم پاکستانی حکومت کو نہیں بلکہ اپنے خاندانوں کو رقوم بھیجتے ہیں'

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کہتے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنا پیسہ حکومت پاکستان کو نہیں بلکہ اپنے خاندانوں اور رشتہ داروں کو بھیجتے ہیں جو یہاں مقیم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ اہم وقت ہے جب پاکستان کو ایک ایک امریکی ڈالر کی اشد ضرورت ہے۔ عمران خان کا بیان پاکستان کی بہتری کے لیے کام نہیں کرے گا اور ان کے خیال میں لوگ ان کی ایسی باتوں پر کان نہیں دھریں گے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد عمران خان کے ساتھ ہے اور اُن کی جانب سے دی گئی کسی بھی کال کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔

پی ٹی آئی کا یہ مؤقف رہا ہے کہ موجودہ حکومت گزشتہ برس ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے نتیجے میں بنی ہے جب کہ عمران خان کو جیل میں ڈال کر ملکی معیشت میں بہتری کے جھوٹے دعوے کیے جا رہے ہیں۔

حکومتی وزرا پی ٹی آئی کے ان الزامات کی تردید کرتے ہیں جب کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی دھاندلی کے الزامات مسترد کر چکا ہے۔

ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں ملک میں ترسیلات زر بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج کی مدد سے انتظامی اقدامات سے ملک سے ڈالر کی اسمگلنگ کافی حد تک کنٹرول کی ہے۔

ظفر پراچہ کے مطابق ایسے وقت میں جب تبادلہ ریٹ یعنی ایکسچینج ریٹ میں کسی حد تک استحکام دیکھا جارہا ہے تو شہریوں کو پھر سے غیر قانونی راستے اختیار کرنے کا مشورہ دیا جانا کوئی اچھی بات نہیں بلکہ یہ ملکی مفادات کے خلاف تصور کی جائے گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت مزید بہتر اقدامات کرے، ایکسچینج کمپنیز کو صنعت کا درجہ دیا جائے اور ملک سے باہر جانے والی لیبر کو ہنرمند بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ترسیلات زر دگنی یا اس سے بھی زیادہ کی جاسکتی ہیں۔